(1) ناخن تراشنے کو فطری امور میں اس لیے داخل کیا گیا ہے کہ ناخن نجاست اور میل کچیل کو جمع رکھنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں، جو طہارت سے مانع ہے، نیز دیکھنے میں بھی برے لگتے ہیں اور حیوانات کے ساتھ تشبیہ ہوتی ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین شکل و صورت میں پیدا فرمایا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ (التین /۴:۹۵) ’’یقیناً ہم نے انسان کو بہترین شکل و صورت میں پیدا فرمایا ہے۔‘‘ زیادہ بڑے ناخن کسی کو یا اپنے آپ کو زخمی کرسکتے ہیں، اس لیے فطرت سلیمہ کا تقاضا ہے کہ زائد ناخن تراش دیے جائیں۔
(2) انسانیت کے ابتدائی دور میں جب آلات ایجاد نہ ہوئے تھے، ناخن ذبح وغیرہ کے کام آتے تھے۔ اب آلات کی موجودگی میں اس استعمال کی نہ صرف ضرورت باقی نہیں رہی بلکہ یہ قبیح اور ممنوع بھی ہے، اسی لیے ناخن اور دانت سے ذبح کرنے کو شریعت اسلامیہ نے ناجائز قرار دیا ہے۔ (صحيح البخاري، الشركة، حديث: ۲۴۸۸، وصحيح مسلم، الأضاحي، حديث: ۱۹۶۸)