تشریح:
(1) ضمناً یہ معلوم ہوا کہ عورت کے جنازے میں امام کمر کے برابر کھڑا ہوگا۔ ابو داود کی ایک روایت جو حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کے مطابق مرد کے جنازے میں امام سر کے برابر کھڑا ہوگا۔ (سنن أبي داود، حدیث: ۳۱۹۳) احناف دونوں صورتوں میں سینے کے برابر کھڑا ہونے کے قائل ہیں۔ وہ اس روایت کو نفاس والی عورت سے خاص کرتے ہیں کہ آپ اسے پردہ کرنے کے لیے پیٹ کے سامنے کھڑے ہوئے تھے، مگر کسی روایت میں یہ وجہ بیان نہیں کی گئی، نہ عقل اس توجیہ کی تائید کرتی ہے کیونکہ امام کے پیٹ کے سامنے کھڑا ہونے سے پوری صف سے پردہ ممکن نہیں۔ صرف دو چار آدمیوں سے پردہ ہوسکتا ہے اور وہ کسی بھی جگہ کھڑے ہونے سے حاصل ہوسکتا ہے نہ کہ صرف پیٹ کے سامنے کھڑا ہونے سے۔ ویسے بھی پورا جنازہ کفن میں لپیٹا ہوا ہوتا ہے، پھر امام کے ذریعے سے پردہ کیسا ہوگا؟ اور اس پردے کی ضرورت کیوں ہے؟ پھر مفصل روایات یا حضرت سمرہ کی اس حدیث کا مکمل جائزہ لیا جائے تو نفاس والی عورت سے اس کی تخصیص بے معنیٰ ٹھہرتی ہے ہر عورت کی میت پر کھڑا ہونے کا یہی طریقہ مسنون ہے۔ علی کل حال۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث یا آپ کا واضح عمل موجود ہو تو محتمل ادھر ادھر کے دلائل یا قیاس آرائیوں سے اسے ٹالنا نہیں چاہیے۔
(2) باب والا مسئلہ ظاہر الفاظ سے ثابت ہو رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے۔ گویا یہ آپ کا معمول تھا۔