تشریح:
(1) حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کا مٹی میں لوٹ پوٹ ہونا ایک اجتہادی عمل تھا اور شاید اس بنا پر تھا کہ تیمم بھی غسل کی جگہ کفایت کرسکے گا جب وہ اس کی مثل ہو، یعنی پورے بدن پر مٹی لگے۔
(2) اگر اجتہاد کرنے والے سے غلطی ہو جائے تو اسے ملامت نہیں کی جائے گی۔
(3) جو آدمی اپنے اجتہاد سے کوئی عمل کرلے اور بعد میں اسے معلوم ہو کہ اس کا عمل قرآن وسنت کے منافی تھا تو اس کے لیے اسے دوبارہ لوٹانا ضروری نہیں۔
(4) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تیمم صرف چہرے اور ہتھیلیوں تک ایک ضرب کے ساتھ ہے۔ دو ضرب اور کہنیوں تک کی روایات کلام سے خالی نہیں، اس لیے محدثین نے ایک ضرب کے ساتھ ہتھیلیوں تک تیمم کو ترجیح دی ہے کیونکہ یہ صحیح ترین روایات ہیں۔ احناف نے دوسرے طریقے کو اختیار کیا ہے اور ان روایات کا جواب یہ دیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف یہ بتلایا ہے کہ وضو والا تیمم ہی غسل کے لیے کافی ہے۔ تیمم کا طریقہ بتلانا مقصود نہ تھا، مگر یہ بات قابل غور ہے کہ بیان کرنے والے صحابہ نے تو یہ مفہوم نہیں سمجھا۔ حاضرین کا فہم معتبر ہے یا غیر حاضرین کا؟ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے یوں تطبیق دی ہے کہ ایک ضرب اور ہتھیلیوں تک تیمم کافی ہے، البتہ دو ضرب کے ساتھ کہنیوں تک افضل اور مستحب ہے لیکن یہ تطبیق بھی محل نظر ہے کیونکہ استحباب اور افضلیت کے اثبات کے لیے صحیح دلیل کا ہونا ضروری ہے۔ تیمم سے متعلق دیگر احکام و مسائل کے لیے دیکھیے: کتاب الغسل و التیمم کا ابتدائیہ۔
(5) حضرت عمر اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہا غسل کی جگہ تیمم کو کافی نہیں سمجھتے تھے، مگر یہ صرف ان کی احتیاط تھی ورنہ قرآن مجید میں آیت تیمم کے اندر جنابت سے بھی تیمم کی اجازت ہے۔ دیکھیے: (النسآء ۴۳:۴ و المائدة ۶:۵)
(6) مذکورہ حدیث پر بعض نسخوں میں عنوان قائم نہیں کیا گیا کیونکہ اس سے پہلے والی حدیث پر بھی یہی عنوان قائم کیا گیا ہے جس سے یہ محض تکرار ہی محسوس ہوتی ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح. وأخرجه البخاري ومسلم، وابن حبان (1301
و 1302) ، وأبو عوانة في "صحاحهم ") .
إسناده: حدثنا محمد بن سليمان الأنباري: نا أبو معاوية الضرير عن
الأعمش عن شقيق.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله رجال الشيخين؛ غير محمد بن سليمان
الأنباري، وهو ثقة.
والحديث أخرجه أحمد (4/264) : ثنا أبو معاوية... به.
وأخرجه البخاري (1/362) ، ومسلم (1/192) ، والنسائي (1/61) ،
والدارقطني (ص 66) من طرق أخرى عن أبي معاوية... به؛ وزاد أحمد:
لم يُجِزِ الأعمش الكفين. وزاد مسلم:
ضربة واحدة.
ثم أخرجه هو، وأحمد (4/265) ، وأبو عوانة في "صحيحه " (1/303- 304
و 304- 305) ، والبيهقي (1/211- 226) من طرق أخرى عن الأعمش... به.
وقال البيهقي:
" لا يشك حديثي في صحة إسناده ". وزاد أحمد إثر الأية: قال:
فما درى عبد الله ما يقول! وفال: لو رخصنا... إلخ.
وإسناده صحيح على شرطهما.