تشریح:
(1) اس حدیث پر مکمل بحث اور اس مسئلے کی پوری تفصیل پیچھے گزرچکی ہے۔ دیکھیے‘ حدیث: ۳۲۲۴۔
(2) حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہر حدیث کے لیے ضروری نہیں سمجھتے کہ دو شحص گواہی دیں‘ تب قبول ہوگی بلکہ وہ اس روایت کو اپنے اجتہاد کے مطابق عقل ونقل کے یکسر خلاف سمجھتے تھے اگرچہ ان کا یہ موقف درست نہ تھا کہ اوپر گزرا’ اس لیے یہ فرمایا‘ ورنہ بہت سے مقامات پر ایک آدمی کی روایت کو انہوں نے قبول فرمایا ہے اور عمل کیا ہے‘ مثلاً: مجوس سے جزیہ وصول کرنے اور طاعون کے علاقے سے نکلنے کے بارے میں روایت۔