تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص عاریتا کوئی چیز لے کر انکار کردے جب کہ گواہ موجود ہوں تو اسے چور سمجھ کر اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ یہ امام احمد اور اسحاق وغیرہ کا موقف ہے کیونکہ یہ بھی چوری کی ایک قسم ہے بلکہ اس کا نقصان معاشرے کے لیے زیادہ ہے کیونکہ اگر اس پر سزا نہ دی جائے تو لوگ عاریتا چیزیں دینے سے انکار کردیں گے جس سے غریب لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پھر اس کی چوری کے ساتھ مشابہت ہے کہ یہ بھی حیلے کے ساتھ لوگوں کے مال محفوظ کو اڑانا ہے اور چوری میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے، لہذا اس جرم پر بھی چوری والی سزا دی جائے گی۔ اور رسول اللہ ﷺ شرعا اس بات کے مجاز ہیں کہ شرعی اطلاقات کی وضاحت فرمائیں اس لیے بعض محدثین اس جرم پر بھی ہاتھ کاٹنے کے قائل ہیں جب کہ جمہور اہل علم اس کے قائل نہیں بلکہ صرف چوری پر قطع ید نافذ کرتے ہیں۔ اس حدیث کی تاویل وہ اس طرح کرتے ہیں کہ آپ نے اس جرم پر اس کا ہاتھ نہیں کاٹا تھا بلکہ چوری پر کاٹا تھا جیسا کہ بعض روایات میں وضاحت ہے کہ اس نے چوری کی تھی۔ یہ جرم تو اس کی مزید مذمت کرنے کے لیے ذکر کیا گیا ہے۔ چونکہ دیگر روایات وطرق میں بصراحت چوری پر قطع کا ذکر موجود ہے پھر واقعہ بھی ایک دفعہ ہی پیش آیا ہے اس لیے راجح موقف جمہور ہی کا ہے کہ قطع ید صرف چوری پر ہوگا۔ واللہ أعلم
الحکم التفصیلی:
قلت : و هذا إسناد صحيح على شرط الشيخين .
و له شاهد من حديث عائشة به , و زاد : " فأتى أهلها أسامة بن زيد فكلموه , فكلم
رسول الله صلى الله عليه وسلم فيها ... " أخرجه مسلم ( 5 / 115 ) و أبو داود (
4397 ) و ابن الجارود ( 804 ) و غيرهم من طرق عن عبد الرزاق أيضا عن معمر عن
الزهرى عن عروة عنها .
و تابعه أيوب بن موسى عن الزهرى به , أخرجه النسائى ( 2/256 ) .
و إسناده صحيح على شرط الشيخين . و قد أخرجاه من طرق أخرى عن الزهرى به بلفظ
آخر و قد مضى فى أول " الحدود " ( 2319 ) .
و قد تابعه عبيد الله عن نافع عن ابن عمر بلفظ :
" أن امرأة كانت تستعير الحلى فى زمان رسول الله صلى الله عليه وسلم , فاستعارت
من ذلك حليا , فجمعته ثم أمسكته فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم :
لتتب هذه المرأة و تصدى ما عندها , مرارا , فلم تفعل , فأمر بها فقطعت " .
و فى رواية : " ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : قم يا بلال فخذ بيدها
فافقطعها " أخرجه النسائى , و إسناده صحيح .
و له عنده شاهد آخر عن سعيد بن المسيب مرسلا .
قول عمر : " لاحد إلا على من علمه " .
8/67 :ضعيف .
و قد مضى تخريجه ( 2314 ) و ( 2383 ) .