(1) ان امور کو فطرت قرار دینے سے مراد یہ ہے کہ انسان کی فطرت سلیمہ ان چیزوں کا تقاضا کرتی ہے۔ دین اسلام کو بھی اسی لیے فطرت کہا گیا ہے کہ وہ انسانی فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔
(2) ان امور کو فطرت قرار دینے کی یہ وجہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابتدا ہی سے ہر نبی اور رسول کو ان امور کا حکم دیا، گویا یہ احکام ایسے فطری اور جبلی ہیں کہ ان پر انسانوں کی پیدائش ہوئی۔ فطرت کے معنی پیدائش ہیں۔
(3) ختنے کو فطری امور میں اس لیے شامل کیا گیا ہے کہ ختنہ نہ کرانے کی صورت میں قلفہ (حشفے پر زائد چمڑا) طہارت میں مانع بن سکتا ہے، پیشاب کے قطرے اس میں اٹک سکتے ہیں اور جماع کے بعد حشفہ کی صفائی نہ ہو سکے گی۔ طہارت سے قطع نظر قلفہ جراثیم کی آماجگاہ بھی بن سکتا ہے، لہٰذا قلفے کو کاٹ دینا عقلی اور فطری تقاضا ہے۔