Sunan-nasai:
The Book of the Commencement of the Prayer
(Chapter: Taking one's time in the first two rak'ahs)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1002.
حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے منقول ہے، فرماتے ہیں: حضرت عمر ؓ نے حضرت سعد ؓ سے کہا: تحقیق لوگوں (اہل کوفہ) نے تمھاری ہر چیز کی شکایت کی ہے حتیٰ کہ نماز کی بھی۔ حضرت سعد ؓ نے کہا: میں پہلی دو رکعتوں میں ٹھہرتا (لمبی قراءت کرتا) ہوں اور آخری دو کو ہلکا پڑھتا ہوں۔ اور میں اس نماز سے ذرہ بھر کوتاہی نہیں کرتا جو میں نے اللہ کے رسول ﷺ کی اقتدا میں پڑھی ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: تم سے یہی امید ہے۔
تشریح:
(1) حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ قدیم الاسلام صحابی تھے۔ عشرۂ مبشرہ (وہ دس آدمی جنھیں زبان رسالت سے نام لے کر جنت کی خوش خبری ملی) میں سے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ننھیال میں سے تھے جنگ قادسیہ کے فاتح تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں کوفے کا گورنر مقرر کیا تھا۔ مندرجہ بالا شکایت پر معزول کر دیا مگر اپنے بعد جن چھ صحابہ کو خلافت کے لیے نامزد کیا، ان میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو بھی شامل فرمایا۔ اور وضاحت فرمائی کہ ”میں نے انھیں کسی نقص کی بنا پر معزول نہیں کیا تھا بلکہ وہ انتظامی مسئلہ تھا، لہٰذا یہ خلافت کے اہل ہیں۔“ رضي اللہ عنه وأرضاہ۔ (2) اکثر اہل کوفہ بدباطن لوگ تھے۔ جھوٹی شکایات کے عادی تھے۔ گورنروں تک کو تنگ کیا کرتے تھے۔ کسی کو ٹکنے نہ دیتے تھے۔ حجاج نے انھیں خوب کس کے رکھا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی بابت ان کی مندرجہ بالا شکایات بھی غلط ثابت ہوئیں۔ پھر بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں معزول کر دیا کہ جب حاکم اور محکوم میں غلط فہمیاں اس حد تک ہو جائیں تو امور حکومت خوش اسلوبی سے نہیں چلائے جاسکتے۔ (3) پہلی دو رکعتیں لمبی کرنا مستحب ہے۔ (4) صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا بہت اہتمام کرتے تھے۔ ان کی نماز نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے عین مطابق ہوتی تھی۔ (5) اگر حکومت کو کسی گورنر یا عہدیدار کی شکایت پہنچے جو لوگوں کے معاملات کا ذمہ دار ہو تو حاکم وقت مصلحت کے پیش نظر اسے معزول کرسکتا ہے اگرچہ اس کے خلاف کوئی الزام ثابت نہ بھی ہو۔ (6) معزول ہونے والا اپنے متعلق شکایات کے بارے میں پوچھ گچھ کرسکتا ہے۔ (7) کسی کی تعریف منہ پر کی جا سکتی ہے جب کہ اس سے فتنے میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔ (8) حکمران کو اپنے ماتحتوں کے متعلق اچھا گمان ہی رکھنا چاہیے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط البخاري، وقد أخرجه هو ومسلم وأبو
عوانة في "صحاحهم ") .
إسناده: حدثنا حفص بن عمر: ثنا شعبة عن محمد بن عبيد الله أبي عون
عن جابر بن سمرة .
قلت: وهذا إساد صحيح على شرط البخاري؛ وحفص بن عمر: هو أبو عمر
الحَوْضِي.
والحديث أخرجه الطيالسي (94/1/414- ترتيبه) : حدثنا شعبة... به.
وأخرجه البخاري (2/127) ، ومسلم (2/38) ، وأبو عوانة (2/150) ،
والنسائي (1/155) ، والبيهقي (2/65) ، وأحمد (1/175) من طرق عن
شعبة... به.
وتابعه عبد الملك بن عمير عن جابر: عند مسلم وأبي عوانة والبيهقي وأحمد
(1/176 و 179 و 180) .
حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے منقول ہے، فرماتے ہیں: حضرت عمر ؓ نے حضرت سعد ؓ سے کہا: تحقیق لوگوں (اہل کوفہ) نے تمھاری ہر چیز کی شکایت کی ہے حتیٰ کہ نماز کی بھی۔ حضرت سعد ؓ نے کہا: میں پہلی دو رکعتوں میں ٹھہرتا (لمبی قراءت کرتا) ہوں اور آخری دو کو ہلکا پڑھتا ہوں۔ اور میں اس نماز سے ذرہ بھر کوتاہی نہیں کرتا جو میں نے اللہ کے رسول ﷺ کی اقتدا میں پڑھی ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: تم سے یہی امید ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ قدیم الاسلام صحابی تھے۔ عشرۂ مبشرہ (وہ دس آدمی جنھیں زبان رسالت سے نام لے کر جنت کی خوش خبری ملی) میں سے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ننھیال میں سے تھے جنگ قادسیہ کے فاتح تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں کوفے کا گورنر مقرر کیا تھا۔ مندرجہ بالا شکایت پر معزول کر دیا مگر اپنے بعد جن چھ صحابہ کو خلافت کے لیے نامزد کیا، ان میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو بھی شامل فرمایا۔ اور وضاحت فرمائی کہ ”میں نے انھیں کسی نقص کی بنا پر معزول نہیں کیا تھا بلکہ وہ انتظامی مسئلہ تھا، لہٰذا یہ خلافت کے اہل ہیں۔“ رضي اللہ عنه وأرضاہ۔ (2) اکثر اہل کوفہ بدباطن لوگ تھے۔ جھوٹی شکایات کے عادی تھے۔ گورنروں تک کو تنگ کیا کرتے تھے۔ کسی کو ٹکنے نہ دیتے تھے۔ حجاج نے انھیں خوب کس کے رکھا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی بابت ان کی مندرجہ بالا شکایات بھی غلط ثابت ہوئیں۔ پھر بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں معزول کر دیا کہ جب حاکم اور محکوم میں غلط فہمیاں اس حد تک ہو جائیں تو امور حکومت خوش اسلوبی سے نہیں چلائے جاسکتے۔ (3) پہلی دو رکعتیں لمبی کرنا مستحب ہے۔ (4) صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا بہت اہتمام کرتے تھے۔ ان کی نماز نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے عین مطابق ہوتی تھی۔ (5) اگر حکومت کو کسی گورنر یا عہدیدار کی شکایت پہنچے جو لوگوں کے معاملات کا ذمہ دار ہو تو حاکم وقت مصلحت کے پیش نظر اسے معزول کرسکتا ہے اگرچہ اس کے خلاف کوئی الزام ثابت نہ بھی ہو۔ (6) معزول ہونے والا اپنے متعلق شکایات کے بارے میں پوچھ گچھ کرسکتا ہے۔ (7) کسی کی تعریف منہ پر کی جا سکتی ہے جب کہ اس سے فتنے میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔ (8) حکمران کو اپنے ماتحتوں کے متعلق اچھا گمان ہی رکھنا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابو عون کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن سمرہ ؓ کو کہتے سنا کہ عمر ؓ نے سعد ؓ سے کہا: لوگ ہر بات میں تمہاری شکایت کرتے ہیں یہاں تک کہ نماز میں بھی، سعد ؓ نے کہا: میں پہلی دونوں رکعتوں میں جلد بازی نہیں کرتا۱؎ اور پچھلی دونوں رکعتوں میں قرأت ہلکی کرتا ہوں، میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کی پیروی میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا، عمر ؓ نے کہا: تم سے مجھے یہی توقع ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی اطمینان سے ٹھہر ٹھہر کر قرأت کرتا ہوں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu 'Awn said: "I heard Jabir bin Samurah say: 'Umar (RA) said to Sa'eed: "The people are complaining about everything about you, even about your prayer". Sa'd (RA) said: "I take my time in the first two rak'ahs and I make the other two shorter. I do my best to follow the example of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) in prayer". 'Umar said: 'That is what I thought about you'".