Sunan-nasai:
The Book of The At-Tatbiq (Clasping One's Hands Together)
(Chapter: Another version of the tashahhud)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1175.
حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں تشہد اس طرح سکھاتے تھے جس طرح ہمیں قرآن مجید کی سورت سکھاتے تھے: [بِسْمِ اللَّهِ وَبِاللَّهِ التَّحِيَّاتُ……… مِنْ النَّارِ] ”اللہ کے بابرکت نام اور اللہ تعالیٰ کی مدد اور توفیق کے ساتھ تمام آداب (یا قولی عبادتیں)، تمام دعائیں اور نمازیں (یا بدنی عبادات) اور تمام اچھے کلمات و افعال (یا مالی عبادات) اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں۔ اے نبی! آپ پر اللہ کی طرف سے سلام رحمت اور برکتیں ہوں۔ ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر بھی سلام ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ﷺ) اس کے بندے اور رسول ہیں۔ میں اللہ تعالیٰ سے جنت مانگتا ہوں اور آگ سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔“
تشریح:
(1) تمام قسم کے تشہد ایک جیسے ہیں۔ کہیں کہیں معمولی لفظی فرق ہے۔ معنیٰ میں کوئی فرق نہیں۔ (2) تمام تشہد تین چیزوں پر مشتمل ہیں: اللہ کی مجد و ثنا، نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اوردوسرے صالحین پر سلام اور شہادتین (توحید و رسالت۔) (3) آخری قسم کے تشہد کے شروع اور آخر میں اضافے (زائد کلمات) ہیں۔ شروع میں بسم اللہ اور آخر میں سوال و تعوذ، مگر اس حدیث کا راوی ایمن بن نابل متفرد ہے۔ کسی نے اس کی موافقت نہیں کی، لہٰذا یہ غیر معتبر ہے، یعنی یہ حدیث ضعیف ہے۔ (4) تمام قسم کے تشہدات میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بصیغۂ خطاب سلام کہا گیا ہے۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے ورنہ خطاب سے نماز فاسد ہو جاتی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ صرف صیغہ خطاب کا ہے مقصود خطاب نہیں بلکہ دعا ہے کیونکہ آپ خود بھی انھی الفاظ سے تشہد پڑھا کرتے تھے۔ ان الفاظ کو پڑھتے وقت یہ عقیدہ نہیں ہونا چاہیے کہ آپ سلام سن رہے ہیں۔ ہاں، آپ کو پہنچایا جائے تو الگ بات ہے۔ اسی طرح آپ کے جوابی سلام کا بھی کوئی ذکر نہیں۔ (5) [عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ] معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے اوصاف فاضلہ میں سے یہ دو وصف سب سے اعلیٰ ہیں، تبھی انھیں شہادتین میں داخل کیا گیا جو کہ کسی کے ایمان کی دلیل ہیں۔ [عَبْدُ] بہت بڑا اعزاز ہے، اس لیے ہر افضل مقام میں اس کا ذکر کیا گیا ہے، مثلاً: معراج و اسرا وغیرہ۔ دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ نجم ﴿أَسْرَى بِعَبْدِهِ﴾(بني إسرائیل: ۱:۱۷) اور ﴿فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ﴾(النجم: ۱۰:۵۳)
حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں تشہد اس طرح سکھاتے تھے جس طرح ہمیں قرآن مجید کی سورت سکھاتے تھے: [بِسْمِ اللَّهِ وَبِاللَّهِ التَّحِيَّاتُ……… مِنْ النَّارِ] ”اللہ کے بابرکت نام اور اللہ تعالیٰ کی مدد اور توفیق کے ساتھ تمام آداب (یا قولی عبادتیں)، تمام دعائیں اور نمازیں (یا بدنی عبادات) اور تمام اچھے کلمات و افعال (یا مالی عبادات) اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں۔ اے نبی! آپ پر اللہ کی طرف سے سلام رحمت اور برکتیں ہوں۔ ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر بھی سلام ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ﷺ) اس کے بندے اور رسول ہیں۔ میں اللہ تعالیٰ سے جنت مانگتا ہوں اور آگ سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) تمام قسم کے تشہد ایک جیسے ہیں۔ کہیں کہیں معمولی لفظی فرق ہے۔ معنیٰ میں کوئی فرق نہیں۔ (2) تمام تشہد تین چیزوں پر مشتمل ہیں: اللہ کی مجد و ثنا، نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اوردوسرے صالحین پر سلام اور شہادتین (توحید و رسالت۔) (3) آخری قسم کے تشہد کے شروع اور آخر میں اضافے (زائد کلمات) ہیں۔ شروع میں بسم اللہ اور آخر میں سوال و تعوذ، مگر اس حدیث کا راوی ایمن بن نابل متفرد ہے۔ کسی نے اس کی موافقت نہیں کی، لہٰذا یہ غیر معتبر ہے، یعنی یہ حدیث ضعیف ہے۔ (4) تمام قسم کے تشہدات میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بصیغۂ خطاب سلام کہا گیا ہے۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے ورنہ خطاب سے نماز فاسد ہو جاتی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ صرف صیغہ خطاب کا ہے مقصود خطاب نہیں بلکہ دعا ہے کیونکہ آپ خود بھی انھی الفاظ سے تشہد پڑھا کرتے تھے۔ ان الفاظ کو پڑھتے وقت یہ عقیدہ نہیں ہونا چاہیے کہ آپ سلام سن رہے ہیں۔ ہاں، آپ کو پہنچایا جائے تو الگ بات ہے۔ اسی طرح آپ کے جوابی سلام کا بھی کوئی ذکر نہیں۔ (5) [عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ] معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے اوصاف فاضلہ میں سے یہ دو وصف سب سے اعلیٰ ہیں، تبھی انھیں شہادتین میں داخل کیا گیا جو کہ کسی کے ایمان کی دلیل ہیں۔ [عَبْدُ] بہت بڑا اعزاز ہے، اس لیے ہر افضل مقام میں اس کا ذکر کیا گیا ہے، مثلاً: معراج و اسرا وغیرہ۔ دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ نجم ﴿أَسْرَى بِعَبْدِهِ﴾(بني إسرائیل: ۱:۱۷) اور ﴿فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ﴾(النجم: ۱۰:۵۳)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں تشہد پڑھنا سکھاتے جیسے ہمیں قرآن کی سورۃ پڑھنا سکھاتے، فرماتے: «بِسْمِ اللَّهِ وَبِاللَّهِ التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَسْأَلُ اللَّهَ الْجَنَّةَ وَأَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ النَّارِ»۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Jabir said: "The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) used to teach us the tashahhud just as he would teach us a surah of the Quran: "Bismillah, wa billahi. At-tahiyyatu lillahi was-salawatu wat-tayyibat, as-salamu 'alaika ayyuhan-Nabiyyu wa rahmatAllahi wa baraktuhu. As-salamu 'alaina wa 'ala 'ibad illahis-salihin, ashahdu an la illaha ill-Allah wa ashhadu anna Muhammadan 'abduhu wa rasuluhu. A'sal Allahal-jannah wa a'udhu Billahi min an-nar (Allah compliments, prayers and pure words are due to Allah. Peace be upon you, O Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم), and the mercy of Allah (SWT) and his blessings. Peace be upon us and upon the righteous slaves of Allah (SWT). I bear witness that none has the right to be worshipped except Allah and I bear witness that Muhammad is His slave and Messenger. I ask Allah for Paradise and I seek refuge with Allah from the Fire)'.
حدیث حاشیہ:
الحكم على الحديث
اسم العالم
الحكم
١. فضيلة الشيخ الإمام محمد ناصر الدين الألباني
ضعیف
٢. فضيلة الشيخ العلّامة شُعيب الأرناؤوط
أيمن بن نابل صدوق،لكن له أوهام،وهذا منها،فقد وهم في إسناده و متنه