کتاب: سفر میں نماز قصر کرنے کے متعلق احکام و مسائل
(
باب:...
)
Sunan-nasai:
The Book of Shortening the Prayer When Traveling
(Chapter: )
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1433.
حضرت یعلی بن امیہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے پوچھا کہ (قرآن کی آیت) (لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنْ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمْ الَّذِينَ كَفَرُوا) ”تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم نماز قصر کرلو بشرطیکہ تمھیں ڈر ہو کہ کافر تمھیں نقصان پہنچائیں گے۔“ (سے معلوم ہوتا ہے کہ قصر نماز خوف ہی کی حالت کے ساتھ خاص ہے) اب تو لوگ امن کی حالت میں ہیں۔ (لہٰذا نماز قصر نہیں کرنی چاہیے۔) حضرت عمر ؓ نے فرمایا: مجھے بھی اس بات پر تعجب ہوا تھا جس پر تجھے تعجب ہوا ہے تو میں نے اس بارے میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھا۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ صدقہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم پر کیا ہے، تو تم اللہ تعالیٰ کا صدقہ قبول کرو۔“
تشریح:
(1) مندرجہ بالا آیت میں بظاہر سفر اور خوف دونوں کو قصر کے لیے شرط قرار دیا گیا ہے، لہٰذا یہ سوال بجا ہے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جب قصر کا حکم نازل ہوا، اس وقت تو واقعتاً سفر بھی تھا اور خوف بھی مگر بعد میں خوف کی شرط ساقط کر دی گئی۔ لفظ ”صدقہ“ بھی اس سقوط پر دلالت کرتا ہے۔ مگر اس سقوط کا ذکر قرآن میں نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی معلوم ہوا۔ اس بات کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ قصر کے لیے صرف سفر ہی شرط تھا، خوف کا ذکر درپیش صورتِ حال کے طور پر تھا کیونکہ اس وقت خوف کی حالت بھی تھی۔ بعد میں وضاحت کر دی گئی کہ خوف قصر کے لیے شرط نہیں، لہٰذا ”صدقہ“ قصر کے حکم کو کہا جائے گا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ قرآن مجید میں ذکر قصر خوف کا ہے نہ کہ قصر سفر کا۔ اور قصر خوف سے مراد طریقۂ جماعت میں سہولت کے مطابق تبدیلی ہے جیسا کہ آیت کے ما بعد الفاظ اور احادیث میں اس کی تفصیل وارد ہے۔ گویا قصر ہیئت مراد ہے۔ قصر سفر کا ذکر صرف احادیث میں ہے۔ بعض حضرات کے نزدیک (إِنْ خِفْتُمْ) یعنی خوف کی قید قصر کی بجائے ما بعد کلام سے متعلق ہے، یعنی اگر تمھیں خوف ہو تو نماز کی ادائیگی کے وقت دو گروپ بنالو۔ اور (إِنْ خِفْتُمْ) سے پہلے الگ جملہ ہے، یعنی جب تم سفر میں ہو تو قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔ بہرصورت صحابہ رضی اللہ عنھم سے لے کر اب تک اتفاق ہے کہ قصر کے لیے خوف کی شرط نہیں۔ (2) ”قصر“ سے مراد یہ ہے کہ رباعی نماز (یعنی ظہر، عصر اور عشاء) کی دو رکعت پڑھ لیا جائے۔ مغرب اور فجر اپنی اصلی حالت پر رہیں گی۔ (3) ”قبول کرو“ اس لفظ سے بعض حضرات نے استدلال کیا ہے کہ قصر واجب ہے، حالانکہ قرآن مجید کے صریح الفاظ وجوب کی نفی کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قصر کے لیے ”صدقہ“ کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس سے وجوب ثابت نہیں ہوتا۔ صحیح بات یہی ہے کہ قصر رخصت ہے اور اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کی رخصت کو قبول کیا جائے۔ اس بنا پر ہمارے نزدیک یہی افضل ہے کہ دوران سفر نماز قصر پڑھی جائے، لیکن اگر کوئی رخصت سے فائدہ نہ اٹھاتے ہوئے نماز پوری ادا کرتا ہے تو اس کا جواز ہے جیسا کہ حضرت عائشہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما سے صراحتاً مکمل نماز (یعنی چار رکعت) پڑھنے کی صحیح روایات مذکور ہیں۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، التقصیر، حدیث: ۱۰۹۰، و صحیح مسلم، صلاة المسافرین و قصرھا، حدیث: ۶۸۵، ۶۹۴) جبکہ احناف قصر کو واجب اور چار رکعت پڑھنے کو ممنوع سمجھتے ہیں، مگر اس کی کوئی دلیل پیش نہیں کی جاسکتی۔ (4) مقام و مرتبے میں کم شخص اپنے سے افضل شخصیت سے قابل اشکال چیز کی وضاحت طلب کرسکتا ہے۔
حضرت یعلی بن امیہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے پوچھا کہ (قرآن کی آیت) (لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنْ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمْ الَّذِينَ كَفَرُوا) ”تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم نماز قصر کرلو بشرطیکہ تمھیں ڈر ہو کہ کافر تمھیں نقصان پہنچائیں گے۔“ (سے معلوم ہوتا ہے کہ قصر نماز خوف ہی کی حالت کے ساتھ خاص ہے) اب تو لوگ امن کی حالت میں ہیں۔ (لہٰذا نماز قصر نہیں کرنی چاہیے۔) حضرت عمر ؓ نے فرمایا: مجھے بھی اس بات پر تعجب ہوا تھا جس پر تجھے تعجب ہوا ہے تو میں نے اس بارے میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھا۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ صدقہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم پر کیا ہے، تو تم اللہ تعالیٰ کا صدقہ قبول کرو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) مندرجہ بالا آیت میں بظاہر سفر اور خوف دونوں کو قصر کے لیے شرط قرار دیا گیا ہے، لہٰذا یہ سوال بجا ہے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جب قصر کا حکم نازل ہوا، اس وقت تو واقعتاً سفر بھی تھا اور خوف بھی مگر بعد میں خوف کی شرط ساقط کر دی گئی۔ لفظ ”صدقہ“ بھی اس سقوط پر دلالت کرتا ہے۔ مگر اس سقوط کا ذکر قرآن میں نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی معلوم ہوا۔ اس بات کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ قصر کے لیے صرف سفر ہی شرط تھا، خوف کا ذکر درپیش صورتِ حال کے طور پر تھا کیونکہ اس وقت خوف کی حالت بھی تھی۔ بعد میں وضاحت کر دی گئی کہ خوف قصر کے لیے شرط نہیں، لہٰذا ”صدقہ“ قصر کے حکم کو کہا جائے گا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ قرآن مجید میں ذکر قصر خوف کا ہے نہ کہ قصر سفر کا۔ اور قصر خوف سے مراد طریقۂ جماعت میں سہولت کے مطابق تبدیلی ہے جیسا کہ آیت کے ما بعد الفاظ اور احادیث میں اس کی تفصیل وارد ہے۔ گویا قصر ہیئت مراد ہے۔ قصر سفر کا ذکر صرف احادیث میں ہے۔ بعض حضرات کے نزدیک (إِنْ خِفْتُمْ) یعنی خوف کی قید قصر کی بجائے ما بعد کلام سے متعلق ہے، یعنی اگر تمھیں خوف ہو تو نماز کی ادائیگی کے وقت دو گروپ بنالو۔ اور (إِنْ خِفْتُمْ) سے پہلے الگ جملہ ہے، یعنی جب تم سفر میں ہو تو قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔ بہرصورت صحابہ رضی اللہ عنھم سے لے کر اب تک اتفاق ہے کہ قصر کے لیے خوف کی شرط نہیں۔ (2) ”قصر“ سے مراد یہ ہے کہ رباعی نماز (یعنی ظہر، عصر اور عشاء) کی دو رکعت پڑھ لیا جائے۔ مغرب اور فجر اپنی اصلی حالت پر رہیں گی۔ (3) ”قبول کرو“ اس لفظ سے بعض حضرات نے استدلال کیا ہے کہ قصر واجب ہے، حالانکہ قرآن مجید کے صریح الفاظ وجوب کی نفی کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قصر کے لیے ”صدقہ“ کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس سے وجوب ثابت نہیں ہوتا۔ صحیح بات یہی ہے کہ قصر رخصت ہے اور اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کی رخصت کو قبول کیا جائے۔ اس بنا پر ہمارے نزدیک یہی افضل ہے کہ دوران سفر نماز قصر پڑھی جائے، لیکن اگر کوئی رخصت سے فائدہ نہ اٹھاتے ہوئے نماز پوری ادا کرتا ہے تو اس کا جواز ہے جیسا کہ حضرت عائشہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما سے صراحتاً مکمل نماز (یعنی چار رکعت) پڑھنے کی صحیح روایات مذکور ہیں۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، التقصیر، حدیث: ۱۰۹۰، و صحیح مسلم، صلاة المسافرین و قصرھا، حدیث: ۶۸۵، ۶۹۴) جبکہ احناف قصر کو واجب اور چار رکعت پڑھنے کو ممنوع سمجھتے ہیں، مگر اس کی کوئی دلیل پیش نہیں کی جاسکتی۔ (4) مقام و مرتبے میں کم شخص اپنے سے افضل شخصیت سے قابل اشکال چیز کی وضاحت طلب کرسکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
یعلیٰ بن امیہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب ؓ سے آیت کریمہ: «لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنْ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمْ الَّذِينَ كَفَرُوا» ”تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں، اگر تمہیں ڈر ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے“ (النساء: ۱۰۱)، کے متعلق عرض کیا کہ اب تو لوگ مامون اور بےخوف ہو گئے ہیں؟ تو عمر ؓ نے کہا: مجھے بھی اس سے تعجب ہوا تھا جس سے تم کو تعجب ہے، تو میں نے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے پوچھا، تو آپ نے فرمایا: ”یہ ایک صدقہ ہے ۱؎ جسے اللہ تعالیٰ نے تم پر کیا ہے، تو تم اس کے صدقہ کو قبول کرو۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی اسے اللہ تعالیٰ نے تمہاری کمزوری اور درماندگی کو دیکھتے ہوئے تمہاری پریشانی اور مشقت کے ازالہ کے لیے بطور رحمت تمہارے لیے مشروع کیا ہے، لہٰذا آیت میں «إِنْ خِفْتُمْ» (اگر تمہیں ڈر ہو) کی جو قید ہے وہ اتفاقی ہے احترازی نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ya'la bin Umayyah said: "I said to 'Umar bin Al-Khattab: 'There is no sin on you if you shorten salah and if you fear that the disbelievers may put you in trial (attack you). But now the people are safe.' 'Umar said: 'I wondered the same thing, so I asked the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) about that and he said: This is a favor from Allah (SWT) to you, so accept His favor."