کتاب: رات کے قیام اور دن کی نفلی نماز کے متعلق احکام و مسائل
(
باب: نفل نمازگھر میں پڑھنے کی ترغیب اور اس کی فضیلت
)
Sunan-nasai:
The Book of Qiyam Al-Lail (The Night Prayer) and Voluntary Prayers During the Day
(Chapter: Encouragement to pray in houses and the virtue of doing so)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1599.
حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے مسجد میں کھجور کی چٹائی کو کھڑا کرکے حجرہ سا بنا لیا (تاکہ سکون سے رات کی نماز پڑھ سکیں) اللہ کے رسول ﷺ نے کئی راتیں اس میں نماز پڑھی حتیٰ کہ لوگ بھی آپ کے قریب جمع ہونے لگ گئے (اور آپ کی نماز کے ساتھ نماز پڑھنے لگے) پھر ایک رات انھوں نے آپ کی آواز محسوس نہ کی۔ انھوں نے سمجھا کہ آپ سوئے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کچھ کھنکارنے لگے تاکہ آپ (جاگ کر) ان کی طرف تشریف لے آئیں۔ (مگر آپ نہ نکلے، پھر صبح کے وقت) آپ نے فرمایا: جو کچھ تم کرتے رہے ہو میں دیکھتا رہا ہوں (مگر، اس لیے نہیں نکلا کہ) مجھے خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں (تمھارے ذوق شوق کی وجہ سے) تم پر رات کی نماز فرض ہی نہ کردی جائے۔ اور اگر تم پر فرض کردی جاتی تو تم اسے ادا نہ کر پاتے، لہٰذا اے لوگو رات کی نماز اپنے گھروں میں پڑھ لیا کرو کیونکہ فرض نماز کے علاوہ انسان کی افضل نماز وہ ہے جو گھر میں پڑھے۔“
تشریح:
(1) دوسری روایات میں صراحت ہے کہ یہ رمضان المبارک کی بات ہے اور یہاں رات کی نماز سے مراد تراویح ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ سا بنانے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ معتکف ہوں گے ورنہ آپ رات کی نماز گھر میں پڑھا کرتے تھے۔ یا ممکن ہے کہ گھر میں کسی وجہ سے تنگی ہو اور آپ نے علیحدگی میں نماز پڑھنے کے لیے چٹائی کھڑی کی ہو۔ (2) ”فرض نہ کردی جائے“ رمضان المبارک میں تراویح کا فرض ہوجانا پانچ نمازوں میں اضافے کے مترادف نہیں کہ اعتراض پیدا ہوکہ ﴿مَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ﴾ کے الفاظ (جو اللہ تعالیٰ نے لیلۃ الاسراء میں پانچ نماز کی فرضیت کے وقت فرمائے تھے) کے بعد تو فرضیت کا خطرہ نہیں تھا کیونکہ اس قول میں صرف روزانہ کی پانچ نمازوں میں اضافہ یا کمی کی نفی کی گئی ہے اور تراویح کی، بالفرض، فرضیت سے یومیہ نمازوں میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ (3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد فرضیت کا خطرہ ناپید ہوگیا، لہٰذا نماز تراویح کو مسجد میں مستقل باجماعت جاری کردیا گیا جو خلفائے راشدین کے دور سے لے کر اب تک بلانزاع امت میں جاری و ساری ہے اور اجماعی مسئلہ ہے اور سنت المسلمین بن چکا ہے۔ اب کسی مسجد کو اس سعادت سے محروم نہیں رکھا جائے گا، البتہ اگر کوئی شخص انفرادی طور پر گھر میں ادا کرنا چاہے تو بھی جائز ہے مگر ضروری ہے کہ وہ نماز تراویح میں قرآن مجید زیادہ پڑھنے کے قابل ہو تاکہ اصل مقصد پورا ہو، نہ کہ صرف رکعات کی گنتی پوری کرے۔
الحکم التفصیلی:
قلت : وله شاهد من حديث عبد الله بن سعد قال : ( سألت رسول الله ( صلى الله عليه وسلم ) أيما أفضل : الصلاة في بيتي أو الصلاة في المسجد ؟ قال : ألا ترى إلى بيتي أقربه من المسجد ؟ فلأن أصلي في بيتي أحب إلي من أن أصلي في المسجد إلا أن تكون صلاة مكتوبة ) . أخرجه ابن ماجه ( 1378 ) والطحاوي ( 1 / 200 ) والبيهقي ( 2 / 412 ) وأحمد ( 4 / 342 ) من طريق معاوية بن صالح عن العلاء بن الحارث عن حرام بن معاوية عنه . قلت : وقال في ( الزوائد ) ( ق 85 / 2 ) : ( هذا إسناد صحيج رجاله ثقات رواه ابن حبان في صحيحه ) . وهو كما قال وحرام بن معاوية تابعي ثقة ويقال فيه حرام بن حكيم
مختصر مسلم ( 374 ) ، صحيح الجامع ( 5627
حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے مسجد میں کھجور کی چٹائی کو کھڑا کرکے حجرہ سا بنا لیا (تاکہ سکون سے رات کی نماز پڑھ سکیں) اللہ کے رسول ﷺ نے کئی راتیں اس میں نماز پڑھی حتیٰ کہ لوگ بھی آپ کے قریب جمع ہونے لگ گئے (اور آپ کی نماز کے ساتھ نماز پڑھنے لگے) پھر ایک رات انھوں نے آپ کی آواز محسوس نہ کی۔ انھوں نے سمجھا کہ آپ سوئے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کچھ کھنکارنے لگے تاکہ آپ (جاگ کر) ان کی طرف تشریف لے آئیں۔ (مگر آپ نہ نکلے، پھر صبح کے وقت) آپ نے فرمایا: جو کچھ تم کرتے رہے ہو میں دیکھتا رہا ہوں (مگر، اس لیے نہیں نکلا کہ) مجھے خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں (تمھارے ذوق شوق کی وجہ سے) تم پر رات کی نماز فرض ہی نہ کردی جائے۔ اور اگر تم پر فرض کردی جاتی تو تم اسے ادا نہ کر پاتے، لہٰذا اے لوگو رات کی نماز اپنے گھروں میں پڑھ لیا کرو کیونکہ فرض نماز کے علاوہ انسان کی افضل نماز وہ ہے جو گھر میں پڑھے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) دوسری روایات میں صراحت ہے کہ یہ رمضان المبارک کی بات ہے اور یہاں رات کی نماز سے مراد تراویح ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ سا بنانے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ معتکف ہوں گے ورنہ آپ رات کی نماز گھر میں پڑھا کرتے تھے۔ یا ممکن ہے کہ گھر میں کسی وجہ سے تنگی ہو اور آپ نے علیحدگی میں نماز پڑھنے کے لیے چٹائی کھڑی کی ہو۔ (2) ”فرض نہ کردی جائے“ رمضان المبارک میں تراویح کا فرض ہوجانا پانچ نمازوں میں اضافے کے مترادف نہیں کہ اعتراض پیدا ہوکہ ﴿مَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ﴾ کے الفاظ (جو اللہ تعالیٰ نے لیلۃ الاسراء میں پانچ نماز کی فرضیت کے وقت فرمائے تھے) کے بعد تو فرضیت کا خطرہ نہیں تھا کیونکہ اس قول میں صرف روزانہ کی پانچ نمازوں میں اضافہ یا کمی کی نفی کی گئی ہے اور تراویح کی، بالفرض، فرضیت سے یومیہ نمازوں میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ (3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد فرضیت کا خطرہ ناپید ہوگیا، لہٰذا نماز تراویح کو مسجد میں مستقل باجماعت جاری کردیا گیا جو خلفائے راشدین کے دور سے لے کر اب تک بلانزاع امت میں جاری و ساری ہے اور اجماعی مسئلہ ہے اور سنت المسلمین بن چکا ہے۔ اب کسی مسجد کو اس سعادت سے محروم نہیں رکھا جائے گا، البتہ اگر کوئی شخص انفرادی طور پر گھر میں ادا کرنا چاہے تو بھی جائز ہے مگر ضروری ہے کہ وہ نماز تراویح میں قرآن مجید زیادہ پڑھنے کے قابل ہو تاکہ اصل مقصد پورا ہو، نہ کہ صرف رکعات کی گنتی پوری کرے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مسجد میں چٹائی سے گھیر کر ایک کمرہ بنایا، تو آپ نے اس میں کئی راتیں نمازیں پڑھیں یہاں تک کہ لوگ آپ کے پاس جمع ہونے لگے، پھر ان لوگوں نے ایک رات آپ کی آواز نہیں سنی، وہ سمجھے کہ آپ سو گئے ہیں، تو ان میں سے کچھ لوگ کھکھارنے لگے، تاکہ آپ ان کی طرف نکلیں تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے تمہیں اس کام میں برابر لگا دیکھا تو ڈرا کہ کہیں وہ تم پر فرض نہ کر دی جائے، اور اگر وہ تم پر فرض کر دی گئی تو تم اسے ادا نہیں کر سکو گے، تو لوگو! تم اپنے گھروں میں نمازیں پڑھا کرو، کیونکہ آدمی کی سب سے افضل (بہترین) نماز وہ ہے جو اس کے گھر میں ہو سوائے فرض نماز کے۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یہ حکم تمام نفلی نمازوں کو شامل ہے، البتہ اس حکم سے وہ نمازیں مستثنیٰ ہیں جو شعائر اسلام میں شمار کی جاتی ہیں مثلاً عیدین، استسقاء اور کسوف و خسوف (چاند اور سورج گرہن) کی نمازوں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Zaid bin Thabit that : The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) used some palm fiber mats to section off a small area in the masjid. And the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) prayed in it for several nights until the people gathered around him. Then, one night they did not hear his voice, and they thought that he was sleeping, so they cleared their throats to make him come out to them. He said: 'You kept doing that until I feared that it would be made obligatory for you, and if it were made obligatory, you would not be able to do it. O people, pray in your houses, for the best prayer a person offers is in his house, apart from the prescribed (obligatory) prayers.'"