کتاب: رات کے قیام اور دن کی نفلی نماز کے متعلق احکام و مسائل
(
باب: رات جاگنے والی روایت میں حضرت عائشہؓ کے الفاظ میں اختلاف
)
Sunan-nasai:
The Book of Qiyam Al-Lail (The Night Prayer) and Voluntary Prayers During the Day
(Chapter: The differing narrations from 'Aishah regarding staying up at night (in prayer))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1644.
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ (نفل) نماز اتنی لمبی پڑھتے تھے کہ آپ کے قدم مبارک سوج جاتے تھے۔ آپ سے گزارش کی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے تو آپ کے اگلے پچھلے سب قصور معاف فرما دیے ہیں (پھر آپ اتنی عبادت کیوں کرتے ہیں؟) آپ نے فرمایا: ”کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکرگزار بندہ نہ بنو؟“
تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کا سوج جانا سستی کومستلزم نہیں کیونکہ سستی اور چستی کا تعلق دل اور دماغ کے ساتھ ہے۔ (2) ”اگلے پچھلے گناہ“ یہ ایک فرضی چیز ہے۔ کہا گیا ہے نبوت سے قبل اگر کوئی کوتاہی ہوئی ہو۔ بعض نے اس سے ترک اولیٰ مراد لیا ہے جو آپ اپنی امت کی مصلحت کی خاطر کیا کرتے تھے، مثلاً : جنگ بدر کے قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دینا یا عبداللہ بن ابی کا جنازہ پڑھنا وغیرہ۔ اسے اجتہادی خطا سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ (3) ”شکرگزار بندہ“ یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پوچھ گچھ موقوف کردی ہے تو میرا بھی فرض ہے کہ میں ہر دم اسی کو یاد کروں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انھی اداؤں نے آپ کو سیدالاولین والآخرین بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد ہی کی وجہ سے آپ مقام محمود پر فائز ہوں گے۔ (فداہ نفسي و روحي صلی اللہ علیه وسلم) (4) شکر جیسے زبان سے ادا ہوتا ہے عمل سے بھی ہوتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1645
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1643
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
1645
تمہید کتاب
تمہید باب
ذیل میں آنے والی احادیث میں حضرت عائشہ ؓ سے مختلف الفاظ منقول ہیں، کسی میں ہے کہ آپ آخری عشرے میں ساری رات جاگتے۔ کسی روایت میں ساری رات جاگنے کی نفی ہے، بلکہ ایک روایت (1633) میں مذمت کی گئی ہے۔ اگر حدیث:1640 میں وارد الفاظ (احيا رسول الله ﷺ اللیل) کو رات کے بیشتر حصے پر محمول کرلیا جائے تو احادیث کا باہمی تعارض رفع ہوجاتا ہے جیسا کہ دوسری اورتیسری حدیث سے پتا چلتا ہے۔ روایات میں تطبیق کے لیے دیکھیے: فائدہ حدیث: 1642۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ (نفل) نماز اتنی لمبی پڑھتے تھے کہ آپ کے قدم مبارک سوج جاتے تھے۔ آپ سے گزارش کی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے تو آپ کے اگلے پچھلے سب قصور معاف فرما دیے ہیں (پھر آپ اتنی عبادت کیوں کرتے ہیں؟) آپ نے فرمایا: ”کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکرگزار بندہ نہ بنو؟“
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کا سوج جانا سستی کومستلزم نہیں کیونکہ سستی اور چستی کا تعلق دل اور دماغ کے ساتھ ہے۔ (2) ”اگلے پچھلے گناہ“ یہ ایک فرضی چیز ہے۔ کہا گیا ہے نبوت سے قبل اگر کوئی کوتاہی ہوئی ہو۔ بعض نے اس سے ترک اولیٰ مراد لیا ہے جو آپ اپنی امت کی مصلحت کی خاطر کیا کرتے تھے، مثلاً : جنگ بدر کے قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دینا یا عبداللہ بن ابی کا جنازہ پڑھنا وغیرہ۔ اسے اجتہادی خطا سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ (3) ”شکرگزار بندہ“ یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پوچھ گچھ موقوف کردی ہے تو میرا بھی فرض ہے کہ میں ہر دم اسی کو یاد کروں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انھی اداؤں نے آپ کو سیدالاولین والآخرین بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد ہی کی وجہ سے آپ مقام محمود پر فائز ہوں گے۔ (فداہ نفسي و روحي صلی اللہ علیه وسلم) (4) شکر جیسے زبان سے ادا ہوتا ہے عمل سے بھی ہوتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مغیرہ بن شعبہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ (نماز میں) کھڑے رہتے یہاں تک کہ آپ کے دونوں پیر سوج جاتے، تو آپ سے عرض کیا گیا: اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دیئے ہیں (پھر آپ اتنی عبادت کیوں کرتے ہیں) تو آپ نے فرمایا: ”کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ziyad bin Ilaqah said: "I heard Al-Mughirah bin Shu'bah say: 'The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) stood (in prayer at night) until his feet swelled up, and it was said to him: Allah has forgiven your past and future sins. He said: "Should I not be a thankful slave?'"