کتاب: رات کے قیام اور دن کی نفلی نماز کے متعلق احکام و مسائل
(
باب: (رات کی نفل نماز میں)آہستہ پڑھنے والے کی اونچا پڑھنے والے پر فضیلت
)
Sunan-nasai:
The Book of Qiyam Al-Lail (The Night Prayer) and Voluntary Prayers During the Day
(Chapter: The Superiority of reciting silently over reciting loudly)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1663.
حضرت عقبہ بن عامر ؓ اپنے شاگردوں کو بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص بلند آواز سے قرآن پڑھتا ہے، وہ اس شخص کی طرح ہے جو اعلانیہ صدقہ کرتا ہے اور جو شخص آہستہ قرآن پڑھتا ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جو چھپا کر صدقہ کرتا ہے۔“
تشریح:
ظاہراً حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید آہستہ پڑھنا افضل ہے کیونکہ چھپا کر صدقہ کرنا قطعاً افضل ہے۔ ﴿وَإِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ﴾(البقرة:۲:۲۷۱) مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو تہجد میں آہستہ قراءت کرتے ہوئے دیکھا تو حکم دیا تھا کہ ”کچھ اونچا پڑھا کرو۔“ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بہت اونچا پڑھتے ہوئے سنا تو فرمایا تھا: ”کچھ آہستہ پڑھا کرو۔“ نیز اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں قراءت کے متعلق فرمایا: ﴿وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ وَلا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلا﴾(بني اسرائیل:۱۷: ۱۱۰)”اپنی نماز کی قراءت سے نہ تو بہت (بلند) آواز سے کریں اور نہ بالکل آہستہ، بلکہ ان دونوں کے مابین کی راہ اختیار کریں۔“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ درمیانی آواز سے پڑھنا افضل ہے اور یہی بات درست ہے۔ باب والی حدیث میں بلند آواز سے مراد بہت زیادہ بلند آواز ہوگی جس میں ریاکاری کا بھی احتمال ہے اور وہ دوسرے نمازیوں، آرام کرنے والوں اور مریضوں کے لیے بھی تکلیف و تشویش کا باعث ہوگی یا جب جہر میں ریا کا خطرہ ہو تو اس وقت آہستہ افضل ہے۔
حضرت عقبہ بن عامر ؓ اپنے شاگردوں کو بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص بلند آواز سے قرآن پڑھتا ہے، وہ اس شخص کی طرح ہے جو اعلانیہ صدقہ کرتا ہے اور جو شخص آہستہ قرآن پڑھتا ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جو چھپا کر صدقہ کرتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ظاہراً حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید آہستہ پڑھنا افضل ہے کیونکہ چھپا کر صدقہ کرنا قطعاً افضل ہے۔ ﴿وَإِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ﴾(البقرة:۲:۲۷۱) مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو تہجد میں آہستہ قراءت کرتے ہوئے دیکھا تو حکم دیا تھا کہ ”کچھ اونچا پڑھا کرو۔“ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بہت اونچا پڑھتے ہوئے سنا تو فرمایا تھا: ”کچھ آہستہ پڑھا کرو۔“ نیز اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں قراءت کے متعلق فرمایا: ﴿وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ وَلا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلا﴾(بني اسرائیل:۱۷: ۱۱۰)”اپنی نماز کی قراءت سے نہ تو بہت (بلند) آواز سے کریں اور نہ بالکل آہستہ، بلکہ ان دونوں کے مابین کی راہ اختیار کریں۔“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ درمیانی آواز سے پڑھنا افضل ہے اور یہی بات درست ہے۔ باب والی حدیث میں بلند آواز سے مراد بہت زیادہ بلند آواز ہوگی جس میں ریاکاری کا بھی احتمال ہے اور وہ دوسرے نمازیوں، آرام کرنے والوں اور مریضوں کے لیے بھی تکلیف و تشویش کا باعث ہوگی یا جب جہر میں ریا کا خطرہ ہو تو اس وقت آہستہ افضل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عقبہ بن عامر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو جہر سے قرآن پڑھتا ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جو اعلان کر کے صدقہ کرتا ہے، اور جو آہستہ قرآن پڑھتا ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جو چھپا کر چپکے سے صدقہ کرتا ہے۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یہ صرف نفلی نماز ہے، ورنہ مغرب، عشاء، فجر اور جمعہ کی نماز میں جہر کرنا واجب ہے، جس طرح فرض و نفل صدقہ کا معاملہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Kathir bin Murrah that 'Uqbah bin 'Amir told them that: The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: 'The one who recites the Qur'an loudly is like one who gives charity openly, and the one who recites the Qur'an silently is like the one who gives charity in secret.'"