کتاب: رات کے قیام اور دن کی نفلی نماز کے متعلق احکام و مسائل
(
باب: ایک وتر کیسے پڑھا جائے؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Qiyam Al-Lail (The Night Prayer) and Voluntary Prayers During the Day
(Chapter: How to pray witr with one (rak'ah))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1696.
حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ رات کو گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔ ان میں سے ایک رکعت الگ وتر پڑھتے، پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جاتے۔
تشریح:
مذکورہ اور آئندہ آنے والی روایات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ رات کی نماز ہی کو وتر کہا جاتا ہے، وہ جتنی بھی ہو۔ جب آخر میں ایک رکعت پڑھی جائے گی تو ساری نماز ہی وتر (طاق) بن جائے گی۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجه مسلم وأبو عوانة
في "صحيحيهما". وصححه الترمذي ، إلا أن ذكر الاضطجاع بعد الوتر شاذ!
والمحفوظ أنه بعد الفجر؛ كذلك أخرجه البخاري، ورجحه البيهقي والحافظ) .
إسناده: حدثنا القعنبي ص مالك عن ابن شهاب عن عروة بن الزبير عن
عائشة.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه كما يأتي.
والحديث في "الموطأ" (1/8/120) ... بهذا الإسناد.
وقد أخرجه مسلم (2/165) ، وأبو صوا نة (2/326) ، والنسائي (1/248
و 251) ، والترمذي (2/303) - وقال: " حسن صحيح "-، والبيهقي (3/44) ،
وأحمد (6/35 و 182) كلهم عن مالك... به ؛ وزاد مسلم وغيره:
حتى يأتيه الؤذن، فيصلي ركعتين خفيفتين.
وتابعه معمر بن راشد عن الزهري... بك؛ إلا أنه خالفه في الاضطجاع،
فقال:
... فإذا طلع الفجر؛ صلى ركعتين خفيفتين، ثم اضطجع على شقه الأيمن
حتى يجيء المؤذن فيُؤْذِنه.
أخرجه البخاري (4/187) ، وأحمد (6/34) ، والبيهقي، وقال:
" وكذلك رواه الأوزاعي وعمر بن الحارث ويونس بن يزيد وابن أبي ذئب
وشعيب بن أبي حمزة عن الزهري. وكذلك قاله أبو الأسود عن عروة عن عائشة.
وخالفهم مالك بن أنس؛ وذكر الاضطجاع بعد الوتر... "، ثم ساق رواية مالك
التي أخرجها المصنف، ثم قال:
" كذا قاله مالك! والعدد أولى بالحفظ من الواحد. وقد يحتمل أن يكونا
محفوظين، فنقل مالك أحدهما، ونقل الباقون الآخر "!
قلت: وهذا احتمال بعيد! وقد أشار إلى ردِّه الحافظ؛ فقد قال في "الفتح "
(3/36-37) - بعد أن ذكره من طريق مسلم عن مالك-:
" وخالفه أصحاب الزهري عن عروة، فذكروا الاضطجاع بعد الفجر، وهو
المحفوظ. ولم يصب من احتج به على ترك استحباب الاضطجاع ".
ومن هذا التحقيق؛ تعلم أن قول المنذري في "مختصره" (2/98) :
" وأخرجه البخاري ومسلم والترمذي والنسائي وابن ماجه "!
فهو وهم؛ لأن البخاري لم يخرجه بهذا السياق الشاذ، وإنما بالسياق المحفوظ. ، لكن ذكر الاضطجاع بعد الوتر شاذ ، و المحفوظ بعد سنة الفجر ، انظر حديثها الآتي ( 252 - 25 ، صحيح أبي داود ( 1206 ) // عندنا في صحيح سنن أبي داود - باختصار السند - برقم ( 1186 / 1335 ) //
حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ رات کو گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔ ان میں سے ایک رکعت الگ وتر پڑھتے، پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جاتے۔
حدیث حاشیہ:
مذکورہ اور آئندہ آنے والی روایات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ رات کی نماز ہی کو وتر کہا جاتا ہے، وہ جتنی بھی ہو۔ جب آخر میں ایک رکعت پڑھی جائے گی تو ساری نماز ہی وتر (طاق) بن جائے گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ رات کو گیارہ رکعت پڑھتے تھے، ان میں سے ایک رکعت وتر کی ہوتی تھی، پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جاتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Aishah that: The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) used to pray eleven rak'ahs at night, ending them with one rak'ah of witr, then he would lie down on his right side.