تشریح:
(1) گیارہ وتر (نماز تہجد مع وتر) پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ دو دو کرکے پڑھتے جائیں۔ آخر میں ایک رکعت پڑھ لیں۔ سب وتر بن جائے گی۔
(2) ”پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جاتے۔“ شیخ البانی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ وتر کے بعد لیٹنے کا ذکر شاذ ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ یہ لیٹنا فجر کی دو سنتوں کے بعد تھا۔ صحیح روایات سے یہی ثابت ہے۔ (جس کی تفصیل حدیث:۱۷۶۳ کے فوائد میں دیکھی جاسکتی ہے۔) اس لیٹنے کی بابت اہل علم میں اختلاف ہے۔ اہل علم کی ایک جماعت نے فجر کی دو سنتوں کے بعد اس کو جائز اور درست قرار دیا ہے جبکہ بعض اہل علم اس کو درست نہیں سمجھتے اور اس کی مختلف تاویلیں کرتے ہیں۔ دلائل کی رو سے اقرب الی الصواب یہی رائے معلوم ہوتی ہے کہ سنتوں کے بعد لیٹنا مستحب اور افضل ہے کیونکہ اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بھی ہے اور آپ کا اپنا ذاتی عمل بھی۔ صحیحین میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی دو رکعت پڑھ کر اپنے دائیں پہلو پر لیٹا کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:۲۲۶، وصحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:۷۳۶) نیز صحیح احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: [إذا صلّى أحدكم الركعتينِ قبل الصبحِ فليضطجع على يمينِهِ] ”جب تم سے کوئی شخص نماز صبح سے پہلے دو رکعت (سنت) پڑھ لے تو اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جائے۔“ (سنن أبي داود، النطوع، حدیث:۱۲۶۱) بعض اہل علم کہتے ہیں: اگر کوئی شخص گھر میں سنتیں پڑھےتو لیٹ جائے۔ اگر مسجد میں پڑھے تو نہ لیٹے۔ یہ بات محل نظر ہے۔ اس مسئلے کے بارے میں فضیۃ الشیخ صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ صحیح مسلم کی شرح منۃ المنعم میں رقمطراز ہیں کہ فجر کی سنتوں کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دائیں پہلو پر لیٹنا اس کے مستحب ہونے کی دلیل ہے۔ سنتیں گھر میں پڑھی جائیں یا مسجد میں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آگے فرماتے ہیں: فجر کی سنتوں کے بعد دائیں پہلو پر لیٹنے کا حکم مطلق ہے، جہاں سنتیں پڑھے، گھر میں ہو یا مسجد میں، وہیں لیٹے کیونکہ اس (حکم اضطحاع) کے مطلق ہونے کی وجہ سے گھر اور مسجد ہر دو جگہ میں لیٹنا مستحب ہے۔ دیکھیے: (منة المنعم فی شرح صحیح مسلم، صلاة المسافرین:۱؍۴۶۴، شرح حدیث: (۱۲۲)۔۷۳۴)