باب: مختلف علاقوں کے لوگوں کا چاند دیکھنے میں اختلاف
)
Sunan-nasai:
The Book of Fasting
(Chapter: The People Of Different Lands Differing In Sighting (The Moon))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2111.
حضرت کریب بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت ام فضلؓ نے (کسی کام کے لیے) علاقہ شام میں حضرت معاویہ ؓ (امیرالمومنین) کے پاس بھیجا۔ میں شام گیا اور ان کا کام پورا کیا۔ میں ابھی شام ہی میں تھا کہ رمضان المبارک کا چاند طلوع ہوگیا۔ میں نے بذات خود جمعے کی رات چاند دیکھا، پھر میں ماہ رمضان المبارک کے آخر میں مدینہ منورہ واپس آیا تو حضرت ابن عباس ؓ نے چاند کا ذکر کرتے ہوئے مجھ سے پوچھا کہ تم نے (رمضان المبارک کا) چاند کب دیکھا تھا؟ میں نے کہا: ہم نے جمعۃ المبارک کی رات دیکھا تھا۔ وہ فرمانے لگے: تو نے خود جمعے کی رات دیکھا تھا؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ دوسرے لوگوں نے بھی دیکھا تھا، پھر لوگوں نے اور حضرت معاویہ ؓ نے روزہ رکھا۔ آپ نے فرمایا ہم نے تو ہفتے کی رات دیکھا تھا۔ ہم تو روزے رکھتے رہیں گے حتیٰ کہ تیس پورے ہو جائیں یا چاند دیکھ لیں۔ میں نے کہا: کیا آپ حضرت معاویہ ؓ اور ان کے ساتھیوں کے چاند دیکھ لینے کو کافی نہیں سمجھتے؟ انہوں نے کہا نہیں، ہمیں رسول اللہﷺ نے یہی حکم دیا ہے۔
تشریح:
(1) ”یہی حکم دیا ہے“ کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر عید کرو۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر شخص چاند دیکھے بلکہ کوئی ایک معتبر آدمی بھی چاند دیکھ لے یا کسی اور جگہ چاند نظر آنے کی خبر پہنچ جائے تو اس علاقے کے تمام لوگ روزہ رکھیں گے یا عید کریں گے اور نیا مہینہ شروع ہو جائے گا، البتہ یہ تحقیق ضروری ہے کہ دونوں جگہوں میں اتنا فاصلہ نہ ہو جتنے فاصلے سے چاند دیکھنے میں ایک یا دو دن کا فرق پڑ سکتا ہے۔ جس جگہ چاند نظر آیا ہو، اس کے اردگرد جتنے علاقے میں وہ چاند نظر آ سکتا ہو، اتنے علاقے کے لیے وہ رؤیت معتبر ہوگی۔ اس سلسلے میں علمائے رصد سے رہنمائی حاصل کی جائے۔ آج کل ہر اسلامی ملک اتنا چھوٹا ہے کہ اس ملک میں کسی جگہ بھی چاند نظر آجائے تو وہ پورے ملک میں نظر آسکتا ہے، لہٰذا ایک ملک میں کسی جگہ چاند نظر آنے پر سارے ملک میں روزہ یا عید ہو سکتے ہیں، البتہ مختلف ممالک میں چاند مختلف ہو سکتا ہے، مثلاً: سعودی عرب اور پاکستان ایک دوسرے سے خاصے فاصلے پر ہیں۔ اس سلسلے میں علمائے ہیئت و رصد ہی صحیح فیصلہ کر سکتے ہیں، لہٰذا رؤیت ہلال کمیٹی میں ان کی شرکت انتہائی ضروری ہے۔ اس سلسلے میں چند اصول مسلمہ ہیں: * جب ایک شہر میں چاند نظر آئے تو اس سے ملتے جلتے طول بلد پر واقع تمام شہروں میں چاند ہوگا، خواہ ان کا درمیان فاصلہ ہزاروں میل ہی میں ہو۔ *کسی شہر میں چاند نظر آئے تو اس سے مغرب میں واقع تمام علاقوں میں خواہ مخواہ چاند نظر آجائے گا، دیکھنے کی ضرورت نہیں، خواہ فاصلہ ہزاروں میل ہو، البتہ اس کے الٹ ضروری نہیں، یعنی مغرب کا چاند مشرق کے لیے معتبر نہیں، الگ دیکھنا ہوگا۔ *بالائی علاقے میں چاند نظر آئے تو نشیبی علاقے میں چاند کا نظر آنا ضروری نہیں، البتہ اس کے الٹ ضروری ہے، یعنی نشیبی علاقے میں چاند نظر آیا تو بالائی علاقے میں لازماً چاند ہوگا، اور یہ اصول بدیہی ہیں، ان میں اختلاف ممکن نہیں۔ (2) مدینہ منورہ اور دمشق کے درمیان ویسے تو کافی فاصلہ ہے مگر طول بلد کے لحاظ سے صرف چھ درجے کا فرق ہے۔ گویا طلوع اور غروب میں ۲۴ منٹ کا فرق ہے، اتنے فرق سے چاند کی رؤیت میں فرق نہیں پڑتا۔ دونوں جگہ ایک ہی دن چاند ہونا چاہیے، مگر اس دور میں پیغام رسانی کے تیز ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے اتنے فاصلے سے بروقت خبر پہنچنا ناممکن تھا، لہٰذا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ کے لیے شام (یعنی دمشق جو اس وقت دارالخلافہ تھا) کی رؤیت کو کافی نہ سمجھا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2112
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2110
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2113
تمہید کتاب
الصيام کے لغوی معنی ہیں اَلإمساك کہا جاتا ہے[فلان صام عن الكلام] فلاں شخص گفتگو سے رک گیا ہے شرعی طور پر اس کے معنی ہیں طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے ‘پینے اور جماع سے شرعی طریقے کے مطابق رک جانا ‘نیز لغویات بے ہودہ گوئی اور مکروہ حرام کلام سے رک جانا بھی اس میں شامل ہے ۔
حضرت کریب بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت ام فضلؓ نے (کسی کام کے لیے) علاقہ شام میں حضرت معاویہ ؓ (امیرالمومنین) کے پاس بھیجا۔ میں شام گیا اور ان کا کام پورا کیا۔ میں ابھی شام ہی میں تھا کہ رمضان المبارک کا چاند طلوع ہوگیا۔ میں نے بذات خود جمعے کی رات چاند دیکھا، پھر میں ماہ رمضان المبارک کے آخر میں مدینہ منورہ واپس آیا تو حضرت ابن عباس ؓ نے چاند کا ذکر کرتے ہوئے مجھ سے پوچھا کہ تم نے (رمضان المبارک کا) چاند کب دیکھا تھا؟ میں نے کہا: ہم نے جمعۃ المبارک کی رات دیکھا تھا۔ وہ فرمانے لگے: تو نے خود جمعے کی رات دیکھا تھا؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ دوسرے لوگوں نے بھی دیکھا تھا، پھر لوگوں نے اور حضرت معاویہ ؓ نے روزہ رکھا۔ آپ نے فرمایا ہم نے تو ہفتے کی رات دیکھا تھا۔ ہم تو روزے رکھتے رہیں گے حتیٰ کہ تیس پورے ہو جائیں یا چاند دیکھ لیں۔ میں نے کہا: کیا آپ حضرت معاویہ ؓ اور ان کے ساتھیوں کے چاند دیکھ لینے کو کافی نہیں سمجھتے؟ انہوں نے کہا نہیں، ہمیں رسول اللہﷺ نے یہی حکم دیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ”یہی حکم دیا ہے“ کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر عید کرو۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر شخص چاند دیکھے بلکہ کوئی ایک معتبر آدمی بھی چاند دیکھ لے یا کسی اور جگہ چاند نظر آنے کی خبر پہنچ جائے تو اس علاقے کے تمام لوگ روزہ رکھیں گے یا عید کریں گے اور نیا مہینہ شروع ہو جائے گا، البتہ یہ تحقیق ضروری ہے کہ دونوں جگہوں میں اتنا فاصلہ نہ ہو جتنے فاصلے سے چاند دیکھنے میں ایک یا دو دن کا فرق پڑ سکتا ہے۔ جس جگہ چاند نظر آیا ہو، اس کے اردگرد جتنے علاقے میں وہ چاند نظر آ سکتا ہو، اتنے علاقے کے لیے وہ رؤیت معتبر ہوگی۔ اس سلسلے میں علمائے رصد سے رہنمائی حاصل کی جائے۔ آج کل ہر اسلامی ملک اتنا چھوٹا ہے کہ اس ملک میں کسی جگہ بھی چاند نظر آجائے تو وہ پورے ملک میں نظر آسکتا ہے، لہٰذا ایک ملک میں کسی جگہ چاند نظر آنے پر سارے ملک میں روزہ یا عید ہو سکتے ہیں، البتہ مختلف ممالک میں چاند مختلف ہو سکتا ہے، مثلاً: سعودی عرب اور پاکستان ایک دوسرے سے خاصے فاصلے پر ہیں۔ اس سلسلے میں علمائے ہیئت و رصد ہی صحیح فیصلہ کر سکتے ہیں، لہٰذا رؤیت ہلال کمیٹی میں ان کی شرکت انتہائی ضروری ہے۔ اس سلسلے میں چند اصول مسلمہ ہیں: * جب ایک شہر میں چاند نظر آئے تو اس سے ملتے جلتے طول بلد پر واقع تمام شہروں میں چاند ہوگا، خواہ ان کا درمیان فاصلہ ہزاروں میل ہی میں ہو۔ *کسی شہر میں چاند نظر آئے تو اس سے مغرب میں واقع تمام علاقوں میں خواہ مخواہ چاند نظر آجائے گا، دیکھنے کی ضرورت نہیں، خواہ فاصلہ ہزاروں میل ہو، البتہ اس کے الٹ ضروری نہیں، یعنی مغرب کا چاند مشرق کے لیے معتبر نہیں، الگ دیکھنا ہوگا۔ *بالائی علاقے میں چاند نظر آئے تو نشیبی علاقے میں چاند کا نظر آنا ضروری نہیں، البتہ اس کے الٹ ضروری ہے، یعنی نشیبی علاقے میں چاند نظر آیا تو بالائی علاقے میں لازماً چاند ہوگا، اور یہ اصول بدیہی ہیں، ان میں اختلاف ممکن نہیں۔ (2) مدینہ منورہ اور دمشق کے درمیان ویسے تو کافی فاصلہ ہے مگر طول بلد کے لحاظ سے صرف چھ درجے کا فرق ہے۔ گویا طلوع اور غروب میں ۲۴ منٹ کا فرق ہے، اتنے فرق سے چاند کی رؤیت میں فرق نہیں پڑتا۔ دونوں جگہ ایک ہی دن چاند ہونا چاہیے، مگر اس دور میں پیغام رسانی کے تیز ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے اتنے فاصلے سے بروقت خبر پہنچنا ناممکن تھا، لہٰذا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ کے لیے شام (یعنی دمشق جو اس وقت دارالخلافہ تھا) کی رؤیت کو کافی نہ سمجھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
کریب مولیٰ ابن عباس کہتے ہیں: ام فضل ؓ نے انہیں معاویہ ؓ کے پاس شام بھیجا، تو میں شام آیا، اور میں نے ان کی ضرورت پوری کی، اور میں شام (ہی) میں تھا کہ رمضان کا چاند نکل آیا، میں نے جمعہ کی رات کو چاند دیکھا، پھر میں مہینہ کے آخری (ایام) میں مدینہ آ گیا، عبداللہ بن عباس ؓ نے مجھ سے (حال چال) پوچھا، پھر پہلی تاریخ کے چاند کا ذکر کیا، (اور مجھ سے) پوچھا: تم لوگوں نے چاند کب دیکھا؟ تو میں نے جواب دیا: ہم نے جمعہ کی رات کو دیکھا تھا، انہوں نے (تاکیداً) پوچھا: تم نے (بھی) اسے جمعہ کی رات کو دیکھا تھا؟ میں نے کہا: ہاں (میں نے بھی دیکھا تھا) اور لوگوں نے بھی دیکھا، تو لوگوں نے (بھی) روزے رکھے، اور معاویہ ؓ نے بھی، (تو) انہوں نے کہا: لیکن ہم لوگوں نے ہفتے (سنیچر) کی رات کو دیکھا تھا، (لہٰذا) ہم برابر روزہ رکھیں گے یہاں تک کہ ہم (گنتی کے) تیس دن پورے کر لیں، یا ہم (اپنا چاند) دیکھ لیں، تو میں نے کہا: کیا معاویہ ؓ اور ان کے ساتھیوں کا چاند دیکھنا کافی نہیں ہے؟ کہا: نہیں! (کیونکہ) رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایسا ہی حکم دیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Kuraib narrated that Umm Al-Fadl sent him to Muawiyah in Ash-Sham. He said: "I came to Ash-Sham. He said: "I came to Ash-Sham and complete her errand. Then the new crescent of Ramadan was sighted while I was in Ash-Sham. I saw the new crescent on the night of Friday, then I came to Al-Madinah at the end of the month. 'Abdullah bin 'Abbas asked me about the sighting of the moon and said: ' When did you see it?' I said: 'We saw it on the night of Friday.' He said; 'You saw it on the ninth of Friday?' I said: 'Yes, and the people saw it and started fasting, and so did Muawiyah. He said: 'But we saw it on the night of Saturday, so we will continue fasting until we have completed thirty days or we see it.' I said: 'Will you not be content with the sighting of Muawiyah and his companions? He said; 'No; this is what the Messenger of Allah enjoined upon us."'