باب: رمضان المبارک کے چاند کے لیے ایک آدمی کی گواہی کے قبول ہونے کا بیان اور سماک کی حدیث میں سفیان کے شاگردوں کے اختلاف کا ذکر
)
Sunan-nasai:
The Book of Fasting
(Chapter: Accepting The Testimony Of One Man Concerning The Crescent Moon Of Ramadan)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2116.
حضرت حسین بن حارث جدلی سے روایت ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن زید بن خطاب نے اس دن لوگوں کو خطاب کیا جس دن رمضان المبارک ہونا مشکوک تھا۔ انہوں نے فرمایا: میں رسول اللہﷺ کے صحابہ کرام ؓ کے پاس بیٹھتا رہا ہوں اور ان سے مسائل بھی پوچھتا رہا ہوں۔ انہوں نے مجھے بیان کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”جاند دیکھ کر روزے رکھنا شروع کرو اور چاند دیکھ کر روزے رکھنا بند کرو۔ اور چاند دیکھ کر ہی حج اور قربانی کرو۔ اگر چاند نظر نہ آئے تو (مہینے کے) تیس دن پورے کر لو۔ اور اگر دو شخص چاند دیکھنے کی گواہی دیں تو بھی روزے رکھنا شروع یا بند کر دو۔“
تشریح:
(1) ”مشکوک دن“ سے مراد شعبان کا تیسواں دن ہے کیونکہ اس کے بارے میں دونوں امکان ہوتے ہیں، شعبان کی تیسویں ہو یا رمضان المبارک کی یکم، خصوصاً جب چاند کا امکان تھا لیکن مطلع ابر آلود تھا، چاند نظر نہ آ سکا۔ (2) ”چاند نظر نہ آئے“ بادل، غبار یا دھواں وغیرہ کی وجہ سے۔ (3) ”دو شخص گواہی دیں۔“ دو شخص تب ضروری ہیں جب مطلع بالکل صاف ہو کیونکہ ایسی صورت میں زیادہ اشخاص کے دیکھنے کا امکان ہوتا ہے، البتہ اگر مطلع ابر آلود ہو تو ایک شخص کی گواہی بھی کافی ہے جیسا کہ پیچھے حدیث میں بیان ہوا، کیونکہ ایسی صورت میں عموماً نظر آنے کا امکان نہیں ہوتا، ایک آدھ کو نظر آنا بھی غنیمت ہوتا ہے، اس طرح احادیث میں تطبیق ہو جائے گی اور تطبیق ہی بہتر ہوتی ہے، البتہ عید کے لیے دو گواہ ضروری ہیں۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2117
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2115
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2118
تمہید کتاب
الصيام کے لغوی معنی ہیں اَلإمساك کہا جاتا ہے[فلان صام عن الكلام] فلاں شخص گفتگو سے رک گیا ہے شرعی طور پر اس کے معنی ہیں طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے ‘پینے اور جماع سے شرعی طریقے کے مطابق رک جانا ‘نیز لغویات بے ہودہ گوئی اور مکروہ حرام کلام سے رک جانا بھی اس میں شامل ہے ۔
حضرت حسین بن حارث جدلی سے روایت ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن زید بن خطاب نے اس دن لوگوں کو خطاب کیا جس دن رمضان المبارک ہونا مشکوک تھا۔ انہوں نے فرمایا: میں رسول اللہﷺ کے صحابہ کرام ؓ کے پاس بیٹھتا رہا ہوں اور ان سے مسائل بھی پوچھتا رہا ہوں۔ انہوں نے مجھے بیان کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”جاند دیکھ کر روزے رکھنا شروع کرو اور چاند دیکھ کر روزے رکھنا بند کرو۔ اور چاند دیکھ کر ہی حج اور قربانی کرو۔ اگر چاند نظر نہ آئے تو (مہینے کے) تیس دن پورے کر لو۔ اور اگر دو شخص چاند دیکھنے کی گواہی دیں تو بھی روزے رکھنا شروع یا بند کر دو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”مشکوک دن“ سے مراد شعبان کا تیسواں دن ہے کیونکہ اس کے بارے میں دونوں امکان ہوتے ہیں، شعبان کی تیسویں ہو یا رمضان المبارک کی یکم، خصوصاً جب چاند کا امکان تھا لیکن مطلع ابر آلود تھا، چاند نظر نہ آ سکا۔ (2) ”چاند نظر نہ آئے“ بادل، غبار یا دھواں وغیرہ کی وجہ سے۔ (3) ”دو شخص گواہی دیں۔“ دو شخص تب ضروری ہیں جب مطلع بالکل صاف ہو کیونکہ ایسی صورت میں زیادہ اشخاص کے دیکھنے کا امکان ہوتا ہے، البتہ اگر مطلع ابر آلود ہو تو ایک شخص کی گواہی بھی کافی ہے جیسا کہ پیچھے حدیث میں بیان ہوا، کیونکہ ایسی صورت میں عموماً نظر آنے کا امکان نہیں ہوتا، ایک آدھ کو نظر آنا بھی غنیمت ہوتا ہے، اس طرح احادیث میں تطبیق ہو جائے گی اور تطبیق ہی بہتر ہوتی ہے، البتہ عید کے لیے دو گواہ ضروری ہیں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبدالرحمٰن بن زید بن خطاب سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک ایسے دن میں جس میں شک تھا (کہ رمضان کی پہلی تاریخ ہے یا شعبان کی آخری) لوگوں سے خطاب کیا تو کہا: سنو! میں نے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کی ہم نشینی کی، اور میں ان کے ساتھ بیٹھا تو میں نے ان سے سوالات کئے، اور انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم چاند دیکھ کر روزہ رکھو، اور چاند دیکھ کر افطار کرو، اور اسی طرح حج بھی کرو، اور اگر تم پر مطلع ابر آلود ہو تو تیس (کی گنتی) پوری کرو، (اور) اگر دو گواہ (چاند دیکھنے کی) شہادت دے دیں تو روزے رکھو، اور افطار (یعنی عید) کرو۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that ‘Abdur Rahman bin Zaid bin Al-Khattab (RA) addressed the people on the day concerning which there was doubt (as to whether the month had begun) and said: “I sat with the Companions of the Messenger of Allah (ﷺ) and asked them, and they narrated that the Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘Fast when you see it and stop fasting when you see it, and perform the rites on that basis. If it is obscured, then complete thirty days, and if two witnesses testify then fast and stop fasting.” (Sahih)