باب: حضرت ابن عباس کی حدیث میں عمر بن دینار کے شاگردوں کا اختلاف
)
Sunan-nasai:
The Book of Fasting
(Chapter: Mentioning The Differences Reported From 'Amr Bin Dinar In The Hadith Of Ibn 'Abbas About it)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2125.
حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے اس شخص پر تعجب ہے جو ماہ رمضان شروع ہونے سے پہلے روزہ رکھتا ہے جبکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے: ”جب تم چاند دیکھو تو پھر روزہ رکھو اور جب اگلا چاند دیکھو تو روزے رکھنا چھوڑ دو۔ اگر چاند چھپ جائے (نظر نہ آئے) تو مہینے کی گنتی تیس دن پوری کرو۔“
تشریح:
”تعجب ہے“ یعنی رمضان المبارک کا چاند نظر آنے سے پہلے مشکوک (شعبان کے تیسویں) دن کا روزہ نہیں رکھنا چاہیے کہ یہ تکلف اور تشدد ہے۔ صحیح روایات میں اس دن کا روزہ رکھنا رسول اللہﷺ کی نافرمانی بتلایا گیا ہے۔ جن اہل علم نے احتیاطاً نفل روزہ رکھنے کی اجازت دی ہے شاید انہوں نے ان الفاظ کی سختی پر غور نہیں فرمایا۔ باقی رہی فرض اور نفل کی تفریق (کہ فرض منع ہے نفل جائز ہے) تو یہ بات حدیث سے ثابت نہیں ہوتی۔ جب اللہ تعالیٰ نے چاند دکھانے میں احتیاط نہیں فرمائی تو ہمیں خواہ مخواہ اس احتیاط کی کیا ضرورت ہے؟ رَضِینَا بِاللّٰہِ رَبًّا
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2126
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2124
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2127
تمہید کتاب
الصيام کے لغوی معنی ہیں اَلإمساك کہا جاتا ہے[فلان صام عن الكلام] فلاں شخص گفتگو سے رک گیا ہے شرعی طور پر اس کے معنی ہیں طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے ‘پینے اور جماع سے شرعی طریقے کے مطابق رک جانا ‘نیز لغویات بے ہودہ گوئی اور مکروہ حرام کلام سے رک جانا بھی اس میں شامل ہے ۔
تمہید باب
روایت 2126 میں حضرت عمرو بن دینار کے شاگرد حماد بن سلمہ نے عمرو بن دینار اور ابن عباس کے درمیان کوئی واسطہ ذکر نہیں کیا جبکہ روایت: 2126میں حضرت سفیان نے محمد بن حنین کا واسطہ بیان کیا ہے،
حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے اس شخص پر تعجب ہے جو ماہ رمضان شروع ہونے سے پہلے روزہ رکھتا ہے جبکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے: ”جب تم چاند دیکھو تو پھر روزہ رکھو اور جب اگلا چاند دیکھو تو روزے رکھنا چھوڑ دو۔ اگر چاند چھپ جائے (نظر نہ آئے) تو مہینے کی گنتی تیس دن پوری کرو۔“
حدیث حاشیہ:
”تعجب ہے“ یعنی رمضان المبارک کا چاند نظر آنے سے پہلے مشکوک (شعبان کے تیسویں) دن کا روزہ نہیں رکھنا چاہیے کہ یہ تکلف اور تشدد ہے۔ صحیح روایات میں اس دن کا روزہ رکھنا رسول اللہﷺ کی نافرمانی بتلایا گیا ہے۔ جن اہل علم نے احتیاطاً نفل روزہ رکھنے کی اجازت دی ہے شاید انہوں نے ان الفاظ کی سختی پر غور نہیں فرمایا۔ باقی رہی فرض اور نفل کی تفریق (کہ فرض منع ہے نفل جائز ہے) تو یہ بات حدیث سے ثابت نہیں ہوتی۔ جب اللہ تعالیٰ نے چاند دکھانے میں احتیاط نہیں فرمائی تو ہمیں خواہ مخواہ اس احتیاط کی کیا ضرورت ہے؟ رَضِینَا بِاللّٰہِ رَبًّا
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ کہتے ہیں: مجھے حیرت ہوتی ہے اس شخص پر جو مہینہ شروع ہونے سے پہلے (ہی) روزہ رکھنے لگتا ہے، حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم (رمضان کا) چاند دیکھ لو تو روزہ رکھو، (اسی طرح) جب (عید الفطر کا چاند) دیکھ لو تو روزہ رکھنا بند کرو، (اور) جب تم پر بادل چھائے ہوں تو تیس کی گنتی پوری کرو۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn ‘Abbás said: “I am surprised at those who anticipate the month, when the Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘When you see the new crescent then fast, and when you see it, then stop fasting, and if it is obscured from you (too cloudy), then complete thirty days.” (Sahih).