باب: (قمری اور اسلامی)مہینہ کتنے دن کا ہوتا ہے؟اور حضرت عائشہ کی اس حدیث میں زہری کے شاگردوں کا اختلاف
)
Sunan-nasai:
The Book of Fasting
(Chapter: how Long Is The Month? And Mentioning The Differences Reported From Az-Zuhri In the Narration of 'Aishah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2131.
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ (ایک دفعہ) رسول اللہﷺ نے (ناراضی کی بنا پر) قسم کھا لی کہ اپنی بیویوں کے پاس ایک مہینہ تک نہیں جاؤں گا۔ آپ انتیس دن تک اسی حال میں رہے۔ (پھر میرے پاس تشریف لائے) میں نے (یاد دہانی کے طورپر) عرض کیا کہ آپ نے ایک ماہ کی قسم نہیں کھائی تھی میں نے تو انتیس دن شمار کیے ہیں؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔“
تشریح:
(1) اختلاف یہ ہے کہ زہری کے بعض شاگردوں نے اس حدیث کو حضرت عائشہؓ کی طرف منسوب کیا ہے اور بعض نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف، تاہم یہ اختلاف ضرر رساں نہیں، حدیث دونوں سے صحیح طور پر ثابت ہے۔ (2) ”قسم کھالی۔“ اس طرح کی قسم کو شرعی زبان میں ”ایلاء“ کہتے ہیں۔ خاوند بیوی میں اگر کوئی ناچاقی ہو جائے تو خاوند اپنی بیوی سے وقتی طور پر تعلقات منقطع کر سکتا ہے مگر گھر میں رہنا ضروری ہے تاکہ عورت کوئی غلط قدم نہ اٹھائے۔ یہ کیفیت زیادہ سے زیادہ چار ماہ تک رہ سکتی ہے۔ اگر قسم اس سے زیادہ کی ہو تو قسم توڑنا فرض ہے اور چار ماہ کے بعد فوراً تعلقات قائم کرنا ضروری ہے ورنہ اسے طلاق دینا پڑے گی۔ وہ دونوں میں سے کوئی بھی کام نہ کرے تو قاضی یا حاکم اپنی طرف سے اسے مصاحبت پر مجبور کرے گا یا طلاق نافذ کر دے گا اور وہ عورت اس سے مستقل طور پر جدا ہو جائے گی۔ اگر مدت کم ہو تو قسم پوری کر سکتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے صرف ایک ماہ کی قسم کھائی تھی، لہٰذا آپ نے قسم پوری کی۔ اس واقعے کی تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔ (3) ”مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔“ یعنی قمری مہینہ جو احکام اسلامی میں معتبر ہے، تیس دن کا بھی ہوتا ہے اور انتیس کا بھی، لہٰذا انتیس دن کو بھی کامل مہینہ شمار کیا جائے گا۔ ایک مہینے کی قسم شرعاً انتیس دن کے لیے ہوگی۔ یہ اس جملے کا صحیح مفہوم ہے۔ بعض اہل علم نے یوں معنیٰ کیا ہے کہ ”یہ مہینہ انتیس کا ہے۔“ گویا اپ نے پہلی تاریخ کا چاند دیکھ کر قسم کھائی اور اگلا چاند دیکھ کر داخل ہوئے، مگر یہ بہت بعید بات ہے کہ آپ نے ناراضی کے باوجود چاند دیکھنے تک انتظار کیا اور پھر قسم کھائی اور پھر اگلا چاند دیکھتے ہی آپ داخل ہوئے۔ کیا جھگڑا عین چاند والے دن ہوا تھا؟ کسی حدیث میں اس کی صراحت نہیں۔ نہ یہ معنیٰ دل کو لگتا ہے جبکہ پہلا معنیٰ بالکل واضح ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2132
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2130
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2133
تمہید کتاب
الصيام کے لغوی معنی ہیں اَلإمساك کہا جاتا ہے[فلان صام عن الكلام] فلاں شخص گفتگو سے رک گیا ہے شرعی طور پر اس کے معنی ہیں طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے ‘پینے اور جماع سے شرعی طریقے کے مطابق رک جانا ‘نیز لغویات بے ہودہ گوئی اور مکروہ حرام کلام سے رک جانا بھی اس میں شامل ہے ۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ (ایک دفعہ) رسول اللہﷺ نے (ناراضی کی بنا پر) قسم کھا لی کہ اپنی بیویوں کے پاس ایک مہینہ تک نہیں جاؤں گا۔ آپ انتیس دن تک اسی حال میں رہے۔ (پھر میرے پاس تشریف لائے) میں نے (یاد دہانی کے طورپر) عرض کیا کہ آپ نے ایک ماہ کی قسم نہیں کھائی تھی میں نے تو انتیس دن شمار کیے ہیں؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اختلاف یہ ہے کہ زہری کے بعض شاگردوں نے اس حدیث کو حضرت عائشہؓ کی طرف منسوب کیا ہے اور بعض نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف، تاہم یہ اختلاف ضرر رساں نہیں، حدیث دونوں سے صحیح طور پر ثابت ہے۔ (2) ”قسم کھالی۔“ اس طرح کی قسم کو شرعی زبان میں ”ایلاء“ کہتے ہیں۔ خاوند بیوی میں اگر کوئی ناچاقی ہو جائے تو خاوند اپنی بیوی سے وقتی طور پر تعلقات منقطع کر سکتا ہے مگر گھر میں رہنا ضروری ہے تاکہ عورت کوئی غلط قدم نہ اٹھائے۔ یہ کیفیت زیادہ سے زیادہ چار ماہ تک رہ سکتی ہے۔ اگر قسم اس سے زیادہ کی ہو تو قسم توڑنا فرض ہے اور چار ماہ کے بعد فوراً تعلقات قائم کرنا ضروری ہے ورنہ اسے طلاق دینا پڑے گی۔ وہ دونوں میں سے کوئی بھی کام نہ کرے تو قاضی یا حاکم اپنی طرف سے اسے مصاحبت پر مجبور کرے گا یا طلاق نافذ کر دے گا اور وہ عورت اس سے مستقل طور پر جدا ہو جائے گی۔ اگر مدت کم ہو تو قسم پوری کر سکتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے صرف ایک ماہ کی قسم کھائی تھی، لہٰذا آپ نے قسم پوری کی۔ اس واقعے کی تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔ (3) ”مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔“ یعنی قمری مہینہ جو احکام اسلامی میں معتبر ہے، تیس دن کا بھی ہوتا ہے اور انتیس کا بھی، لہٰذا انتیس دن کو بھی کامل مہینہ شمار کیا جائے گا۔ ایک مہینے کی قسم شرعاً انتیس دن کے لیے ہوگی۔ یہ اس جملے کا صحیح مفہوم ہے۔ بعض اہل علم نے یوں معنیٰ کیا ہے کہ ”یہ مہینہ انتیس کا ہے۔“ گویا اپ نے پہلی تاریخ کا چاند دیکھ کر قسم کھائی اور اگلا چاند دیکھ کر داخل ہوئے، مگر یہ بہت بعید بات ہے کہ آپ نے ناراضی کے باوجود چاند دیکھنے تک انتظار کیا اور پھر قسم کھائی اور پھر اگلا چاند دیکھتے ہی آپ داخل ہوئے۔ کیا جھگڑا عین چاند والے دن ہوا تھا؟ کسی حدیث میں اس کی صراحت نہیں۔ نہ یہ معنیٰ دل کو لگتا ہے جبکہ پہلا معنیٰ بالکل واضح ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قسم کھائی کہ ایک ماہ (تک) اپنی بیویوں کے پاس نہیں جائیں گے، چنانچہ آپ انتیس دن ٹھہرے رہے، تو میں نے عرض کیا: کیا آپ نے ایک مہینے کی قسم نہیں کھائی تھی؟ میں نے شمار کیا ہے، ابھی انتیس دن (ہوئے) ہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Aishah (RA) said: “The Messenger of Allah (ﷺ) swore not to come to his wives for a month, and twenty-nine days passed. I said: ‘Did you not vow to keep away from your wives for a month? I have counted twenty-nine days.’ The Messenger of Allah (ﷺ) said: The month is twenty-nine days.” (Sahih)