باب: (قمری اور اسلامی)مہینہ کتنے دن کا ہوتا ہے؟اور حضرت عائشہ کی اس حدیث میں زہری کے شاگردوں کا اختلاف
)
Sunan-nasai:
The Book of Fasting
(Chapter: how Long Is The Month? And Mentioning The Differences Reported From Az-Zuhri In the Narration of 'Aishah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2132.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ میں عرصہ دراز سے خواہش مند تھا کہ میں حضرت عمر بن خطاب ؓ سے رسول اللہﷺ کی ازواج مطہرات میں سے ان دو عورتوں کے بارے میں پوچھوں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا﴾ ”اگر تم اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو تو یہ نہایت مناسب ہے کیونکہ تمہارے دل کج (ٹیڑھے) ہوگئے ہیں۔“ پھر حضرت ابن عباس ؓ نے پوری حدیث بیان فرمائی۔ اس تفصیلی حدیث میں حضرت عمر ؓ نے فرمایا: رسول اللہﷺ اس بات کی وجہ سے جسے حضرت حفصہؓ نے حضرت عائشہؓ کے سامنے فاش (ظاہر) کر دیا تھا، انتیس دن تک اپنی بیویوں سے جدا رہے۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: آپ نے (قسم کھا کر) فرمایا تھا: ”میں اپنی بیویوں کے پاس ایک مہینے تک نہیں آؤں گا۔“ جس وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہودیوں کی بات بتائی تو آپ ان پر سخت ناراض ہوگئے تھے جب انتیس دن گزر گئے تو سب سے پہلے آپ حضرت عائشہؓ کے پاس تشریف لے گئے۔ حضرت عائشہؓ کہنے لگیں: اے اللہ کے رسول! آپ نے تو قسم کھائی تھی کہ ایک ماہ تک ہمارے پاس تشریف نہ لائیں گے اور آج تو انتیسویں دن کی صبح ہے۔ ہم نے یہ دن گن گن کر گزارے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”مہینہ انتیس کا بھی ہوتا ہے۔“
تشریح:
(1) ناراضی کے واقعے کی پوری تفصیل تو ان شاء اللہ اپنے مقام پر آئے گی لیکن اتنا جان لینا کافی ہے کہ آپ نے ایک راز حضرت حفصہؓ کے حوالے کیا تھا اور تاکید فرمائی تھی کہ کسی تک یہ راز نہ پہنچے مگر وہ اپنی فطری کمزوری کی بنا پر راز کو راز نہ رکھ سکیں۔ حضرت عائشہؓ کو بتا بیٹھیں اور ہوتے ہوتے یہ بات سب ازواج مطہراتؓ تک پہنچ گئی جس سے آپﷺ کو دکھ اٹھانا پڑا۔ ایک دو واقعات اور بھی ہوئے، ان تمام وجوہ سے آپ کی ناراضی شدید ہوگئی۔ (2) جب محسوس ہو کہ آدمی قسم توڑ رہا ہے تو اسے یاد کرایا جا سکتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2133
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2131
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2134
تمہید کتاب
الصيام کے لغوی معنی ہیں اَلإمساك کہا جاتا ہے[فلان صام عن الكلام] فلاں شخص گفتگو سے رک گیا ہے شرعی طور پر اس کے معنی ہیں طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے ‘پینے اور جماع سے شرعی طریقے کے مطابق رک جانا ‘نیز لغویات بے ہودہ گوئی اور مکروہ حرام کلام سے رک جانا بھی اس میں شامل ہے ۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ میں عرصہ دراز سے خواہش مند تھا کہ میں حضرت عمر بن خطاب ؓ سے رسول اللہﷺ کی ازواج مطہرات میں سے ان دو عورتوں کے بارے میں پوچھوں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا﴾ ”اگر تم اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو تو یہ نہایت مناسب ہے کیونکہ تمہارے دل کج (ٹیڑھے) ہوگئے ہیں۔“ پھر حضرت ابن عباس ؓ نے پوری حدیث بیان فرمائی۔ اس تفصیلی حدیث میں حضرت عمر ؓ نے فرمایا: رسول اللہﷺ اس بات کی وجہ سے جسے حضرت حفصہؓ نے حضرت عائشہؓ کے سامنے فاش (ظاہر) کر دیا تھا، انتیس دن تک اپنی بیویوں سے جدا رہے۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: آپ نے (قسم کھا کر) فرمایا تھا: ”میں اپنی بیویوں کے پاس ایک مہینے تک نہیں آؤں گا۔“ جس وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہودیوں کی بات بتائی تو آپ ان پر سخت ناراض ہوگئے تھے جب انتیس دن گزر گئے تو سب سے پہلے آپ حضرت عائشہؓ کے پاس تشریف لے گئے۔ حضرت عائشہؓ کہنے لگیں: اے اللہ کے رسول! آپ نے تو قسم کھائی تھی کہ ایک ماہ تک ہمارے پاس تشریف نہ لائیں گے اور آج تو انتیسویں دن کی صبح ہے۔ ہم نے یہ دن گن گن کر گزارے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”مہینہ انتیس کا بھی ہوتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ناراضی کے واقعے کی پوری تفصیل تو ان شاء اللہ اپنے مقام پر آئے گی لیکن اتنا جان لینا کافی ہے کہ آپ نے ایک راز حضرت حفصہؓ کے حوالے کیا تھا اور تاکید فرمائی تھی کہ کسی تک یہ راز نہ پہنچے مگر وہ اپنی فطری کمزوری کی بنا پر راز کو راز نہ رکھ سکیں۔ حضرت عائشہؓ کو بتا بیٹھیں اور ہوتے ہوتے یہ بات سب ازواج مطہراتؓ تک پہنچ گئی جس سے آپﷺ کو دکھ اٹھانا پڑا۔ ایک دو واقعات اور بھی ہوئے، ان تمام وجوہ سے آپ کی ناراضی شدید ہوگئی۔ (2) جب محسوس ہو کہ آدمی قسم توڑ رہا ہے تو اسے یاد کرایا جا سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ کہتے ہیں: مجھے برابر اس بات کا اشتیاق رہا کہ عمر بن خطاب ؓ سے رسول اللہ ﷺ کی ان دونوں بیویوں کے بارے میں پوچھوں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ: «إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا» ”اگر تم دونوں اللہ تعالیٰ سے توبہ کر لو (تو بہتر ہے) یقیناً تمہارے دل جھک پڑے ہیں“ (التحریم: ۴) میں کیا ہے، پھر پوری حدیث بیان کی، اس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں سے انتیس راتوں تک اس بات کی وجہ سے جو حفصہ ؓ نے عائشہ ؓ سے ظاہر کر دی تھی کنارہ کشی اختیار کر لی، عائشہ ؓ کہتی ہیں: آپ نے اپنی اس ناراضگی کی وجہ سے جو آپ کو اپنی عورتوں سے اس وقت ہوئی تھی جب اللہ تعالیٰ نے ان کی بات آپ کو بتلائی یہ کہہ دیا تھا کہ میں ان کے پاس ایک مہینہ تک نہیں جاؤں گا، تو جب انتیس راتیں گزر گئیں تو آپ سب سے پہلے عائشہ ؓ کے پاس آئے تو انہوں نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے تو ایک مہینے تک ہمارے پاس نہ آنے کی قسم کھائی تھی، اور ہم نے (ابھی) انتیسویں رات کی (ہی) صبح کی ہے، ہم ایک ایک کر کے اسے گن رہے ہیں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مہینہ انتیس راتوں کا بھی ہوتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn ‘Abbas said: “I was very keen to ask ‘Umar bin Al-Khattab (RA) about the two wives of the Messenger of Allah (ﷺ) to whom Allah said: If you two turn in repentance to Allah, (it will be better for you), your hearts are indeed so inclined.” And he quoted the Hadith. He said concerning it: “The Messenger of Allah (ﷺ) withdrew from his wives for twenty-nine days because of that, when Hafsah had made her disclosure to 'Aishah (RA). He had said: ‘I will not enter upon them for a month,’ because he was so upset with them when Allah, the Mighty and Sublime, informed him of what they had said. When twenty-nine days had passed, he entered upon 'Aishah (RA), so he started with her. 'Aishah (RA) said to him: ‘Messenger of Allah (ﷺ), you swore not to enter upon us for a month, and now twenty-nine days have passed; we have been counting them.’ The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘The month is twenty-nine days.”(Sahih).