باب: اس شخص کے نام کا ذکر(جو محمد بن عبد الرحمٰن اور حضرت جابر بن عبد اللہؓ کے درمیان ہے)
)
Sunan-nasai:
The Book of Fasting
(Chapter: The Name of that Man)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2264.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کے پاس مَرُّ الظَّہران مقام میں کھانا لایا گیا۔ آپ نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ سے فرمایا: ”قریب آؤ اور کھاؤ۔“ ان دونوں نے کہا: ہم روزے سے ہیں۔ آپ نے دیگر صحابہ ؓ سے فرمایا: ”اپنے ان دو محترم ساتھیوں کے لیے سواریاں تم تیار کرنا اور ان کے دوسرے کام بھی تم کرنا۔“
تشریح:
مذکورہ حدیث کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس پر سیر حاصل بحث کی ہے، جس سے تصحیح حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم، نیز شیخ البانی رحمہ اللہ نے اگلی دونوں روایتوں کو بھی صحیح قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۲۱/ ۱۶۱۔۱۶۳، وسلسلة الأحادیث الصحیحة: ۱/ ۱۶۸۔ ۱۷۰، رقم: ۸۵ و صحیح سنن النسائي: ۲/ ۱۳۲، ۱۳۳، رقم: ۲۲۶۳-۲۲۶۵)
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 1 / 124 :
رواه أبو بكر ابن أبي شيبة في " المصنف " ( ج 2 / 149 / 2 ) ، و الفريابي في
" الصيام " ( 4 / 64 / 1 ) عنه و عن أخيه عثمان بن أبي شيبة ، قالا : حدثنا عمر
بن سعد أبو داود عن سفيان عن الأوزاعي عن يحيى بن أبي كثير عن أبي سلمة عن
أبي هريرة قال :
" أتي النبي صلى الله عليه وسلم بطعام و هو بـ ( مر الظهران ) ، فقال لأبي بكر
و عمر : ادنوا فكلا ، فقالا : إنا صائمان ، فقال : ارحلوا لصاحبيكم " الحديث .
و كذا أخرجه النسائي ( 1 / 315 ) و ابن دحيم في " الأمالي " ( 2 / 1 ) من طرق
أخرى عن عمر بن سعد به .
ثم أخرجه النسائي من طريق محمد بن شعيب : أخبرني الأوزاعي به مرسلا لم يذكر أبا
هريرة ، و كذلك أخرجه من طريق علي - و هو ابن المبارك - عن يحيى به .
و لعل الموصول أرجح ، لأن الذي وصله و هو سفيان عن الأوزاعي ثقة ، و زيادة
الثقة مقبولة ما لم تكن منافية لمن هو أوثق منه .
قلت : و إسناده صحيح على شرط مسلم ، و رواه ابن خزيمة في " صحيحه "
و قال : " فيه دليل على أن للصائم في السفر الفطر بعد مضي بعض النهار " .
كما في " فتح الباري " ( 4 / 158 ) .
و أخرجه الحاكم ( 1 / 433 ) و قال :
" صحيح على شرط الشيخين " . و وافقه الذهبي ! و إنما هو على شرط مسلم وحده ،
فإن عمر بن سعد لم يخرج له البخاري شيئا .
و الغرض من قوله صلى الله عليه و آله وسلم : " ارحلوا لصاحبيكم ... " الإنكار
و بيان أن الأفضل أن يفطرا و لا يحوجا الناس إلى خدمتهما ، و يبين ذلك ما روى
الفريابي ( 67 / 1 ) عن ابن عمر رضي الله عنهما قال : " لا تصم فى السفر فإنهم
إذا أكلوا طعاما قالوا : ارفعوا للصائم ! و إذا عملوا عملا قالوا : اكفلوا
للصائم ! فيذهبوا بأجرك " . و رجاله ثقات .
قلت : ففي الحديث توجيه كريم ، إلى خلق قويم ، و هو الاعتماد على النفس ، و ترك
التواكل على الغير ، أو حملهم على خدمته ، و لو لسبب مشروع كالصيام ، أفليس في
الحديث إذن رد واضح على أولئك الذين يستغلون عملهم ، فيحملون الناس على التسارع
في خدمتهم ، حتى في حمل نعالهم ؟ !
و لئن قال بعضهم : لقد كان الصحابة رضي الله عنهم يخدمون رسول الله صلى الله
عليه وسلم أحسن خدمة ، حتى كان فيهم من يحمل نعليه صلى الله عليه وسلم و هو
عبد الله بن مسعود .
فجوابنا نعم ، و لكن هل احتجاجهم بهذا لأنفسهم إلا تزكية منهم لها ، و اعتراف
بأنهم ينظرون إليها على أنهم و رثته صلى الله عليه وسلم في العلم حتى يصح لهم
هذا القياس ؟ ! وايم الله لو كان لديهم نص على أنهم الورثة لم يجز لهم هذا
القياس ، فهؤلاء أصحابه صلى الله عليه وسلم المشهود لهم بالخيرية ، و خاصة منهم
العشرة المبشرين بالجنة ، فقد كانوا خدام أنفسهم ، و لم يكن واحد منهم يخدم من
غيره ، عشر معشار ما يخدم أولئك المعنيين من تلامذتهم و مريديهم ! فكيف و هم لا
نص عندهم بذلك ، و لذلك فإني أقول : إن هذا القياس فاسد الاعتبار من أصله ،
هدانا الله تعالى جميعا سبيل التواضع و الرشاد .
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2265
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2263
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2266
تمہید کتاب
الصيام کے لغوی معنی ہیں اَلإمساك کہا جاتا ہے[فلان صام عن الكلام] فلاں شخص گفتگو سے رک گیا ہے شرعی طور پر اس کے معنی ہیں طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے ‘پینے اور جماع سے شرعی طریقے کے مطابق رک جانا ‘نیز لغویات بے ہودہ گوئی اور مکروہ حرام کلام سے رک جانا بھی اس میں شامل ہے ۔
تمہید باب
آئندہ روایت سے معلوم ہو رہا ہے کہ اس کا نام محمد بن عمرو بن حسن ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کے پاس مَرُّ الظَّہران مقام میں کھانا لایا گیا۔ آپ نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ سے فرمایا: ”قریب آؤ اور کھاؤ۔“ ان دونوں نے کہا: ہم روزے سے ہیں۔ آپ نے دیگر صحابہ ؓ سے فرمایا: ”اپنے ان دو محترم ساتھیوں کے لیے سواریاں تم تیار کرنا اور ان کے دوسرے کام بھی تم کرنا۔“
حدیث حاشیہ:
مذکورہ حدیث کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس پر سیر حاصل بحث کی ہے، جس سے تصحیح حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم، نیز شیخ البانی رحمہ اللہ نے اگلی دونوں روایتوں کو بھی صحیح قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۲۱/ ۱۶۱۔۱۶۳، وسلسلة الأحادیث الصحیحة: ۱/ ۱۶۸۔ ۱۷۰، رقم: ۸۵ و صحیح سنن النسائي: ۲/ ۱۳۲، ۱۳۳، رقم: ۲۲۶۳-۲۲۶۵)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس مرالظہران (مکہ و مدینہ کے درمیان ایک مقام کا نام ہے) میں کھانا لایا گیا، تو آپ نے ابوبکر و عمر ؓ سے فرمایا: ”تم دونوں قریب آ جاؤ اور کھاؤ“، انہوں نے عرض کیا: ہم روزہ سے ہیں، تو آپ نے لوگوں سے کہا: ”اپنے دونوں ساتھیوں کے کجاوے کس دو، اور اپنے دونوں ساتھیوں کے کام کر دو۔“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس سے سفر میں روزہ رکھنے کا جواز ثابت ہوا اور یہ بھی ثابت ہوا کہ روزہ دار کو سہولت پہنچائی جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Hurairah (RA) said: “Some food was brought to the Messenger of Allah (ﷺ) at Marr Az-Zahran, and he said to Abu Bakr (RA) and ‘Umar (RA): ‘Come and eat.’ They said: ‘We are fasting.’ He said: ‘Saddle the camels for your companions, and help your companions.” (Da’if)