باب: مسافرکو (وقتی طور پر)روزہ معاف ہونے کا ذکر اور اس بارے میں حضرت عمرو بن امیہ ضمریؓ کی حدیث (کے بیان) میں اوزاعی کے شاگردوں کا اختلاف
)
Sunan-nasai:
The Book of Fasting
(Chapter: Fasting is waived from the traveler and the differences reported from Al-Awzai in the narration Of 'Amr Bin 'Umayyah About That)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2267.
حضرت عمرو بن امیہ ضمری ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک سفر سے واپس رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا: ”اے ابو امیہ! کھانا آرہا ہے۔ ذرا ٹھہرو۔“ میں نے عرض کیا: میں روزے سے ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”ادھر آؤ۔ میرے قریب ہوتا کہ میں تمہیں بتاؤں کہ اللہ تعالیٰ نے مسافر سے روزہ اور نصف نماز معاف کر دی ہے۔“
تشریح:
(1) رسول اللہﷺ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسافر سے فرض روزہ بھی وقتی طور پر معاف فرما دیا ہے، نفل روزے کی تو بات ہی کیا ہے، لہٰذا تو کھانا کھا سکتا ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ سفر میں نفل روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔ (2) ”روزہ اور نصف نماز۔“ مگر دونوں میں فرق ہے۔ فرض روزہ تو بعد میں رکھنا پڑے گا، اور یہ متفقہ مسئلہ ہے۔ مگر نصف نماز جو معاف ہے، وہ مستقل معاف ہے، یعنی اس کی قضا ادا نہیں کرنی پڑے گی۔ (3) ”معاف ہے۔“ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مسافر روزہ رکھ نہیں سکتا یا نماز پوری نہیں پڑھ سکتا بلکہ یہ اس کی مرضی پر موقوف ہے۔ یہ معاف رخصت کے معنیٰ میں ہے۔ (4) ہر نماز نصف معاف نہیں بلکہ صرف وہ نماز جو چار رکعت والی ہے۔ ظہر، عصر اور عشاء باقی دو نمازیں پوری پڑھنی ہوں گی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2268
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2266
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2269
تمہید کتاب
الصيام کے لغوی معنی ہیں اَلإمساك کہا جاتا ہے[فلان صام عن الكلام] فلاں شخص گفتگو سے رک گیا ہے شرعی طور پر اس کے معنی ہیں طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے ‘پینے اور جماع سے شرعی طریقے کے مطابق رک جانا ‘نیز لغویات بے ہودہ گوئی اور مکروہ حرام کلام سے رک جانا بھی اس میں شامل ہے ۔
تمہید باب
اوزاعی کے استاد یحییٰ بن ابی کثیر اور حصرت عمرو بن امیہ ضمری کے درمیان واسطہ ابو سلمہ ہیں یا ابوقلابہ؟ نیز ابو قلابہ کے استاد جعفر بن عمرو ہیں یا ابوالمہاجر؟ یاد رہے عمرو بن امیہ ضمری اور ابو امیہ ضمری ایک ہی شخصیت ہیں۔
حضرت عمرو بن امیہ ضمری ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک سفر سے واپس رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا: ”اے ابو امیہ! کھانا آرہا ہے۔ ذرا ٹھہرو۔“ میں نے عرض کیا: میں روزے سے ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”ادھر آؤ۔ میرے قریب ہوتا کہ میں تمہیں بتاؤں کہ اللہ تعالیٰ نے مسافر سے روزہ اور نصف نماز معاف کر دی ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہﷺ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسافر سے فرض روزہ بھی وقتی طور پر معاف فرما دیا ہے، نفل روزے کی تو بات ہی کیا ہے، لہٰذا تو کھانا کھا سکتا ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ سفر میں نفل روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔ (2) ”روزہ اور نصف نماز۔“ مگر دونوں میں فرق ہے۔ فرض روزہ تو بعد میں رکھنا پڑے گا، اور یہ متفقہ مسئلہ ہے۔ مگر نصف نماز جو معاف ہے، وہ مستقل معاف ہے، یعنی اس کی قضا ادا نہیں کرنی پڑے گی۔ (3) ”معاف ہے۔“ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مسافر روزہ رکھ نہیں سکتا یا نماز پوری نہیں پڑھ سکتا بلکہ یہ اس کی مرضی پر موقوف ہے۔ یہ معاف رخصت کے معنیٰ میں ہے۔ (4) ہر نماز نصف معاف نہیں بلکہ صرف وہ نماز جو چار رکعت والی ہے۔ ظہر، عصر اور عشاء باقی دو نمازیں پوری پڑھنی ہوں گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عمرو بن امیہ ضمری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک سفر سے رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا، آپ نے فرمایا: ”اے ابوامیہ! (بیٹھو) صبح کے کھانے کا انتظار کر لو“، میں نے عرض کیا: میں روزے سے ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: ”آؤ میرے قریب آ جاؤ، میں تمہیں مسافر سے متعلق بتاتا ہوں، اللہ عزوجل نے اس سے روزے معاف کر دیا ہے اور آدھی نماز بھی۔“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی سفر کی حالت میں مسافر پر روزہ رکھنا ضروری نہیں، قرار دیا، بلکہ اسے اختیار دیا ہے کہ وہ چاہے تو روزہ رکھ لے (اگر اس کی طاقت پاتا ہے تو) یا چاہے تو ان کے بدلہ اتنے ہی روزے دوسرے دنوں میں رکھ لے، لیکن مسافر سے روزہ بالکل معاف نہیں ہے، ہاں چار رکعت والی نماز میں سے دو رکعت کی چھوٹ دی ہے، چاہے تو چار رکعت پڑھے اور چاہے تو دو رکعت، اور پھر اس کی قضاء نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
‘Amr bin Umayyah Ad PamrI said: “I came to the Messenger of Allah (ﷺ) from a journey and he said: ‘Stay and have a meal to break the fast, O Abu Umayyah.’ I said: ‘I am fasting.’ He said: ‘Come close to me and I will tell you about the traveler. Allah, the Mighty and Sublime, has waived fasting and half of the prayer for him.” (Sahih)