Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: The Obligation of Zakah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2435.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب حضرت معاذ ؓ کو یمن کی طرف (مبلغ وحاکم بنا کر) بھیجا تو ان سے فرمایا: ’’تو وہاں اہل کتاب (یہودیوں) کے پاس جا رہا ہے۔ جب تو ان کے پاس پہنچے تو ان کو اس بات کی دعوت دینا کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں اور حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول وپیغمبر ہیں۔ اگر وہ تیری اس بات کو مان لیں تو انھیں بتانا کہ اللہ عزوجل نے ان پر ہر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ تیری اس بات کو مان لیں تو ان کو بتانا کہ اللہ عزوجل نے ان پر زکاۃ فرض کی ہے جو ان کے مال دار لوگوں سے لے کر انھی کے محتاج لوگوں میں تقسیم کر دی جائے گی۔ اگر وہ تیری یہ بات تسلیم کر لیں تو (زکاۃ کی وصولی اور دیگر انتظامی معاملات میں) مظلوم کی بددعا سے بچنا۔“
تشریح:
(1) حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا یمن جانا ۹ یا ۱۰ ہجری کی بات ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور تک وہ وہیں رہے۔ (2) ”اہل کتاب“ یمن میں یہودیوں کی بڑی تعداد بستی تھی۔ (3) ”اگر وہ تیری اس بات کو مان لیں۔“ شریعت کے تمام احکام اسلام لانے کے ساتھ ہی لاگو ہو جاتے ہیں مگر نماز دن رات میں پانچ مرتبہ فرض ہے جبکہ زکاۃ سالانہ فرض ہے، اس لیے یوں فرمایا۔ ورنہ یہ مطلب نہیں کہ اگر کوئی نماز نہ پڑھے تو اس پر زکاۃ فرض نہیں۔ (4) ”انھی کے محتاج“ زکاۃ کے اولین حق دار اسی علاقے کے لوگ ہیں الا یہ کہ زکاۃ زائد ہو یا دوسرے لوگ ان سے زیادہ محتاج ہوں۔ (5) کافر کو زکاۃ دینا جائز نہیں۔ (6) بچے اور مجنون کے مال میں بھی زکاۃ واجب ہے کیونکہ حدیث عام ہے، تمام مسلمان اغنیاء کو شامل ہے۔ (7) ”مظلوم کی بددعا سے بچنا۔“ یعنی کسی پر ظلم نہ کرنا کیونکہ مظلوم بددعا کرے گا اور اس کی بددعا ضرور قبول ہوتی ہے، چاہے وہ خود گناہ گار ہی ہو۔ گویا ظلم سب سے بڑا گناہ ہے جو دوسرے گناہوں کو مات کر دیتا ہے۔ (8) اس روایت میں حج اور روزے کا ذکر نہیں۔ ممکن ہے کسی راوی نے مختصر کر دیا ہو یا انتہائی اہم ارکان بیان کر دیے گئے ہوں۔ نماز کے بغیر اسلام قبول نہیں۔ زکاۃ دینے سے اسلامی حکومت کی اطاعت ثابت ہوتی ہے۔ حج اور روزے کا یہ مقام نہیں کیونکہ وہ شخصی عبادات ہیں۔ قرآن مجید سے بھی تائید ہوتی ہے: ارشاد الٰہی ہے: ﴿فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ﴾ (التوبة:۹: ۵)”پھر اگر کافر (اپنے دین سے) توبہ کر لیں، نماز قائم کریں اور زکاۃ دینے لگ جائیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو (انھیں کچھ نہ کہو)۔“
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2436
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2434
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2437
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب حضرت معاذ ؓ کو یمن کی طرف (مبلغ وحاکم بنا کر) بھیجا تو ان سے فرمایا: ’’تو وہاں اہل کتاب (یہودیوں) کے پاس جا رہا ہے۔ جب تو ان کے پاس پہنچے تو ان کو اس بات کی دعوت دینا کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں اور حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول وپیغمبر ہیں۔ اگر وہ تیری اس بات کو مان لیں تو انھیں بتانا کہ اللہ عزوجل نے ان پر ہر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ تیری اس بات کو مان لیں تو ان کو بتانا کہ اللہ عزوجل نے ان پر زکاۃ فرض کی ہے جو ان کے مال دار لوگوں سے لے کر انھی کے محتاج لوگوں میں تقسیم کر دی جائے گی۔ اگر وہ تیری یہ بات تسلیم کر لیں تو (زکاۃ کی وصولی اور دیگر انتظامی معاملات میں) مظلوم کی بددعا سے بچنا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا یمن جانا ۹ یا ۱۰ ہجری کی بات ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور تک وہ وہیں رہے۔ (2) ”اہل کتاب“ یمن میں یہودیوں کی بڑی تعداد بستی تھی۔ (3) ”اگر وہ تیری اس بات کو مان لیں۔“ شریعت کے تمام احکام اسلام لانے کے ساتھ ہی لاگو ہو جاتے ہیں مگر نماز دن رات میں پانچ مرتبہ فرض ہے جبکہ زکاۃ سالانہ فرض ہے، اس لیے یوں فرمایا۔ ورنہ یہ مطلب نہیں کہ اگر کوئی نماز نہ پڑھے تو اس پر زکاۃ فرض نہیں۔ (4) ”انھی کے محتاج“ زکاۃ کے اولین حق دار اسی علاقے کے لوگ ہیں الا یہ کہ زکاۃ زائد ہو یا دوسرے لوگ ان سے زیادہ محتاج ہوں۔ (5) کافر کو زکاۃ دینا جائز نہیں۔ (6) بچے اور مجنون کے مال میں بھی زکاۃ واجب ہے کیونکہ حدیث عام ہے، تمام مسلمان اغنیاء کو شامل ہے۔ (7) ”مظلوم کی بددعا سے بچنا۔“ یعنی کسی پر ظلم نہ کرنا کیونکہ مظلوم بددعا کرے گا اور اس کی بددعا ضرور قبول ہوتی ہے، چاہے وہ خود گناہ گار ہی ہو۔ گویا ظلم سب سے بڑا گناہ ہے جو دوسرے گناہوں کو مات کر دیتا ہے۔ (8) اس روایت میں حج اور روزے کا ذکر نہیں۔ ممکن ہے کسی راوی نے مختصر کر دیا ہو یا انتہائی اہم ارکان بیان کر دیے گئے ہوں۔ نماز کے بغیر اسلام قبول نہیں۔ زکاۃ دینے سے اسلامی حکومت کی اطاعت ثابت ہوتی ہے۔ حج اور روزے کا یہ مقام نہیں کیونکہ وہ شخصی عبادات ہیں۔ قرآن مجید سے بھی تائید ہوتی ہے: ارشاد الٰہی ہے: ﴿فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ﴾ (التوبة:۹: ۵)”پھر اگر کافر (اپنے دین سے) توبہ کر لیں، نماز قائم کریں اور زکاۃ دینے لگ جائیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو (انھیں کچھ نہ کہو)۔“
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے معاذ بن جبل ؓ کو یمن بھیجتے وقت فرمایا: ”تم اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کے پاس جا رہے ہو، تو جب تم ان کے پاس پہنچو تو انہیں اس بات کی دعوت دو کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، پھر اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن و رات میں پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں، پھر اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ عزوجل نے ان پر (زکاۃ) فرض کی ہے، جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان کے محتاجوں میں بانٹ دیا جائے گا، اگر وہ تمہاری یہ بات بھی مان لیں تو پھر مظلوم کی بد دعا سے بچو۔“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس طرح کہ زکاۃ کی وصولی میں ظلم و زیادتی نہ کرو، اور نہ ہی اس کی تقسیم میں، مثلاً کسی سے اس کا بہت اچھا مال لے لو یا کسی کو ضرورت سے زیادہ دے دو اور کسی کو کچھ نہ دو کہ وہ تم سے دکھی ہو کر تمہارے حق میں بد دعا کرے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn ‘Abbas said: “The Messenger of Allah (ﷺ) said to Mu'adh (RA) when he sent him to Yemen: ‘You are going to some of the People of the Book. When you come to them, call them to testify that there is none worthy of worship except Allah and that Muhammad is the Messenger of Allah. If they obey you in that, then tell them that Allah, the Mighty and Sublime, has enjoined upon them five prayers every day and night. If they obey you in that, then tell them that Allah, the Mighty and Sublime, has enjoined on them a charity (Zakah) to be taken from their rich and given to their poor. If they obey you in that, then beware of the supplication of the oppressed person.” (Sahih).