Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: The One Who Withholds Zakah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2443.
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ فوت ہوگئے اور آپ کے بعد حضرت ابوبکر ؓ خلیفہ بنائے گئے اور بہت سے عرب لوگوں نے کفر کا ارتکاب کیا (اور حضرت ابوبکر ؓ نے ان سے لڑنے کا اعلان فرمایا تو حضرت عمر ؓ نے حضرت ابوبکر ؓ سے کہا: آپ ان لوگوں سے کیسے لڑیں گے (جو زکاۃ نہیں دیتے جبکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ”مجھے لوگوں کے ساتھ لڑنے کا حکم دیا گیا ہے حتیٰ کہ وہ لا الٰہ الا اللہ (کلمہ طیبہ پڑھ لیں۔ جس شخص نے لا الہ الا اللہ پڑھ لیا، اس نے مجھ سے اپنی جان ومال بچا لیا الا یہ کہ اس پر کوئی حق بنتا ہو۔ اور اس کا (اندرونی حساب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔“ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! میں ان لوگوں سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکاۃ میں فرق کریں گے کیونکہ زکاۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم! اگر وہ مجھے (بالفرض اونٹ کو باندھنے والی رسی نہ دیں جو رسول اللہ ﷺ کو دیا کرتے تھے تو میں اس کے نہ دینے پر بھی ان سے لڑوں گا۔ حضرت عمر ؓ نے (بعد میں فرمایا: اللہ کی قسم! میری سمجھ میں بھی یہ بات آگئی کہ لڑائی کے لیے حضرت ابوبکر ؓ کا سینہ اللہ تعالیٰ نے کھول دیا ہے تو مجھے یقین ہوگیا کہ یہی حق ہے۔
تشریح:
(1) ”کفر کا ارتکاب کیا۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کئی قسم کے فتنے اٹھے۔ کچھ لوگ اپنے آبائی دین کی طرف لوٹ گئے، کچھ لوگ نبوت کے جھوٹے دعوے داروں کے پیچھے لگ گئے، کچھ لوگ زکاۃ کی فرضیت کے منکر ہوگئے اور کچھ لوگ حکومت کو زکاۃ دینے سے رک گئے۔ پہلے تین گروہ تو قطعاً کافر تھے۔ ان سے لڑنے میں کوئی اختلاف نہ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اختلاف اس آخری گروہ کے بارے میں تھا کیونکہ وہ کافر نہ تھے۔ حکومت کے باغی تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ان سے لڑنے کے حق میں تھے جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تردد تھا۔ (2) ”لا الٰہ الا اللہ پڑھ لیں۔“ مراد پورا کلمہ شہادت ہے۔ اور یہ متفقہ بات ہے، ورنہ یہودی اور عیسائی کو بھی مسلمان کہنا پڑے گا۔ (3) ”الا یہ کہ اس پر کوئی حق بنتا ہو۔“ یعنی اس نے کسی کے جان ومال کا نقصان کیا ہو تو اس کی سزا اسے بھگتنی ہوگی۔ (4) ”اندرونی حساب۔“ کہ اس نے کلمہ خلوص قلب سے پڑھا ہے یا جان ومال بچانے کے لیے۔ (5) ”زکاۃ مال کا حق ہے۔“ وہ نہ دیں تو ان سے زبردستی وصول کیا جائے گا، ورنہ حکومت کا نظام الٹ پلٹ ہو جائے گا اور بغاوت راہ پکڑے گی۔ (6) ”وہ رسی نہ دیں۔“ زور کلام کے لیے مبالغے سے کام لیا گیا ہے اور کلام میں ایسا عموماً ہوتا ہے۔ ورنہ زکاۃ میں رسی دینا لازم نہیں، صرف جانور دینا لازم ہے۔ (7) منکرین زکاۃ سے بھی کافروں کی طرح قتال کرنے پر صحابہ کا اجماع ہے۔ (8) یہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علم وفضل اور شجاعت کی بہت بڑی دلیل ہے۔ آپ نے اس نازک ترین موقع پر کمال ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک بہت بڑے فتنے کو آغاز ہی میں اس کے عبرت ناک انجام تک پہنچا دیا۔ اس وقت ابتداء ً عمر رضی اللہ عنہ بھی آپ سے اتفاق رائے نہ رکھتے تھے کیونکہ اپنے علمی رسوخ کی بنا پر جہاں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پہنچے ہوئے تھے وہاں ابھی عمر رضی اللہ عنہ نہ پہنچے تھے۔ یہ بات ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علمی تفوق کی دلیل ہے۔ اس اور اس جیسے دیگر واقعات کی بنا پر اہل حق کا اجماع ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علمی تفوق کی دلیل ہے۔ اس اور اس جیسے دیگر واقعات کی بنا پر اہل حق کا اجماع ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت کے افضل ترین آدمی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ (9) صحابہ کرامؓ قیاس جلی کے قائل تھے۔ (10) بات کو موکد کرنے کے لیے قسم اٹھانا جائز ہے اگرچہ اس کا مطالبہ نہ کیا گیا ہو۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 1 / 549 :
أخرجه أبو داود ( 2641 ) و الترمذي ( 2 / 100 ) عن سعيد بن يعقوب الطالقاني ،
و النسائي ( 2 / 161 ، 269 ) عن حبان ( و هو ابن موسى المروزي ) و أحمد
( 3 / 199 ) عن علي بن إسحاق ( و هو السلمي المروزي ) كلهم عن عبد الله بن
المبارك أخبرنا حميد الطويل عن أنس بن مالك قال : قال رسول الله صلى الله
عليه وسلم : فذكره .
و قال الترمذي : " حديث حسن صحيح " .
و تابعه ابن وهب : أخبرني يحيى بن أيوب عن حميد الطويل به .
أخرجه أبو داود ( 2642 ) و الطحاوي في " شرح معاني الآثار " ( 2 / 123 ) .
قلت : و هذا إسناد صحيح على شرط الشيخين ، و كذلك طريق حبان المروزي .
و رواه محمد بن عبد الله الأنصاري قال : أنبأنا حميد قال : سأل ميمون بن سياه
أنس بن مالك قال : يا أبا حمزة ما يحرم دم المسلم و ماله ، فقال :
فذكره موقوفا .
و إسناده صحيح أيضا ، و لا منافاة بينه و بين المرفوع ، فكل صحيح . على أن
المرفوع أصح ، و رواته أكثر .
و فيه دليل على بطلان الحديث الشائع اليوم على ألسنة الخطباء و الكتاب :
أن النبي صلى الله عليه وسلم قال في أهل الذمة :
" لهم ما لنا ، و عليهم ما علينا " .
و هذا مما لا أصل له عنه صلى الله عليه و سلم ، بل هذا الحديث الصحيح يبطله ،
لأنه صريح في أنه صلى الله عليه وسلم إنما قال ذلك فيمن أسلم من المشركين و أهل
الكتاب ، و عمدة أولئك الخطباء على بعض الفقهاء الذين لا علم عندهم بالحديث
الشريف ، كما بينته في " الأحاديث الضعيفة و الموضوعة " ( رقم 1103 ) فراجعه
فإنه من المهمات .
و للحديث شاهد بلفظ آخر ، و هو :
" من أسلم من أهل الكتاب فله أجره مرتين ، و له مثل الذي لنا ، و عليه مثل الذي
علينا ، و من أسلم من المشركين فله أجره ، و له مثل الذي لنا ، و عليه مثل الذي
علينا " .
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2444
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2442
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2445
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ فوت ہوگئے اور آپ کے بعد حضرت ابوبکر ؓ خلیفہ بنائے گئے اور بہت سے عرب لوگوں نے کفر کا ارتکاب کیا (اور حضرت ابوبکر ؓ نے ان سے لڑنے کا اعلان فرمایا تو حضرت عمر ؓ نے حضرت ابوبکر ؓ سے کہا: آپ ان لوگوں سے کیسے لڑیں گے (جو زکاۃ نہیں دیتے جبکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ”مجھے لوگوں کے ساتھ لڑنے کا حکم دیا گیا ہے حتیٰ کہ وہ لا الٰہ الا اللہ (کلمہ طیبہ پڑھ لیں۔ جس شخص نے لا الہ الا اللہ پڑھ لیا، اس نے مجھ سے اپنی جان ومال بچا لیا الا یہ کہ اس پر کوئی حق بنتا ہو۔ اور اس کا (اندرونی حساب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔“ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! میں ان لوگوں سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکاۃ میں فرق کریں گے کیونکہ زکاۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم! اگر وہ مجھے (بالفرض اونٹ کو باندھنے والی رسی نہ دیں جو رسول اللہ ﷺ کو دیا کرتے تھے تو میں اس کے نہ دینے پر بھی ان سے لڑوں گا۔ حضرت عمر ؓ نے (بعد میں فرمایا: اللہ کی قسم! میری سمجھ میں بھی یہ بات آگئی کہ لڑائی کے لیے حضرت ابوبکر ؓ کا سینہ اللہ تعالیٰ نے کھول دیا ہے تو مجھے یقین ہوگیا کہ یہی حق ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ”کفر کا ارتکاب کیا۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کئی قسم کے فتنے اٹھے۔ کچھ لوگ اپنے آبائی دین کی طرف لوٹ گئے، کچھ لوگ نبوت کے جھوٹے دعوے داروں کے پیچھے لگ گئے، کچھ لوگ زکاۃ کی فرضیت کے منکر ہوگئے اور کچھ لوگ حکومت کو زکاۃ دینے سے رک گئے۔ پہلے تین گروہ تو قطعاً کافر تھے۔ ان سے لڑنے میں کوئی اختلاف نہ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اختلاف اس آخری گروہ کے بارے میں تھا کیونکہ وہ کافر نہ تھے۔ حکومت کے باغی تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ان سے لڑنے کے حق میں تھے جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تردد تھا۔ (2) ”لا الٰہ الا اللہ پڑھ لیں۔“ مراد پورا کلمہ شہادت ہے۔ اور یہ متفقہ بات ہے، ورنہ یہودی اور عیسائی کو بھی مسلمان کہنا پڑے گا۔ (3) ”الا یہ کہ اس پر کوئی حق بنتا ہو۔“ یعنی اس نے کسی کے جان ومال کا نقصان کیا ہو تو اس کی سزا اسے بھگتنی ہوگی۔ (4) ”اندرونی حساب۔“ کہ اس نے کلمہ خلوص قلب سے پڑھا ہے یا جان ومال بچانے کے لیے۔ (5) ”زکاۃ مال کا حق ہے۔“ وہ نہ دیں تو ان سے زبردستی وصول کیا جائے گا، ورنہ حکومت کا نظام الٹ پلٹ ہو جائے گا اور بغاوت راہ پکڑے گی۔ (6) ”وہ رسی نہ دیں۔“ زور کلام کے لیے مبالغے سے کام لیا گیا ہے اور کلام میں ایسا عموماً ہوتا ہے۔ ورنہ زکاۃ میں رسی دینا لازم نہیں، صرف جانور دینا لازم ہے۔ (7) منکرین زکاۃ سے بھی کافروں کی طرح قتال کرنے پر صحابہ کا اجماع ہے۔ (8) یہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علم وفضل اور شجاعت کی بہت بڑی دلیل ہے۔ آپ نے اس نازک ترین موقع پر کمال ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک بہت بڑے فتنے کو آغاز ہی میں اس کے عبرت ناک انجام تک پہنچا دیا۔ اس وقت ابتداء ً عمر رضی اللہ عنہ بھی آپ سے اتفاق رائے نہ رکھتے تھے کیونکہ اپنے علمی رسوخ کی بنا پر جہاں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پہنچے ہوئے تھے وہاں ابھی عمر رضی اللہ عنہ نہ پہنچے تھے۔ یہ بات ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علمی تفوق کی دلیل ہے۔ اس اور اس جیسے دیگر واقعات کی بنا پر اہل حق کا اجماع ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علمی تفوق کی دلیل ہے۔ اس اور اس جیسے دیگر واقعات کی بنا پر اہل حق کا اجماع ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت کے افضل ترین آدمی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ (9) صحابہ کرامؓ قیاس جلی کے قائل تھے۔ (10) بات کو موکد کرنے کے لیے قسم اٹھانا جائز ہے اگرچہ اس کا مطالبہ نہ کیا گیا ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہو گئی اور آپ کے بعد ابوبکر ؓ خلیفہ بنائے گئے، اور عربوں میں سے جنہیں کافر مرتد ہونا تھا کافر ہو گئے تو عمر ؓ نے ابوبکر ؓ سے کہا: آپ لوگوں سے کیسے لڑیں گے؟ جب کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ یہ لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کر لیں، تو جس نے لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کر لیا، اس نے مجھ سے اپنے مال اور اپنی جان کو سوائے اسلام کے حق ۱؎ کے مجھے سے محفوظ کر لیا۔ اور اس کا حساب اللہ کے سپرد ہے“ ۲؎ اس پر ابوبکر ؓ نے کہا: میں اس شخص سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکاۃ میں فرق کرے گا (یعنی نماز تو پڑھے اور زکاۃ دینے سے منع کرے) کیونکہ زکاۃ مال کا حق ہے، قسم اللہ کی، اگر یہ اونٹ باندھنے کی رسی بھی جو وہ رسول اللہ ﷺ کو ادا کیا کرتے تھے مجھ سے روکیں گے، تو میں ان سے ان کے روکنے پر لڑوں گا، عمر ؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم! زیادہ دیر نہیں ہوئی مگر مجھے یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر ؓ کو قتال کے سلسلے میں شرح صدر عطا کر دیا ہے، اور میں نے جان لیا کہ یہ (یعنی ابوبکر ؓ کی رائے) حق ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : ”سوائے اسلام کے حق کے“ کا مطلب یہ ہے کہ اگر قبول اسلام کے بعد کسی نے ایسا جرم کیا جو قابل حد ہے تو وہ حد اس پر ضرور نافذ ہو گی، مثلاً چوری کی تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا، زنا کیا تو غیر شادی شدہ کو سو کوڑوں کی سزا یا رجم کی سزا، کسی کو ناحق قتل کیا تو قصاص میں قتل کی، سزا دی جائے گی۔ ۲؎ : ”اور ان کا حساب اللہ کے سپرد ہے“ کا مطلب ہے اگر وہ قبول اسلام میں مخلص نہیں ہوں گے بلکہ منافقانہ طور پر اسلام کا اظہار کریں گے، یا قابل جرم کام کا ارتکاب کریں گے لیکن اسلامی عدالت اور افسران مجاز کے علم میں نہیں آ سکا، تو ان کا حساب اللہ کے سپرد ہو گا یعنی آخرت میں اللہ تعالیٰ ان کا فیصلہ فرمائے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Hurairah (RA) said: “When the Messenger of Allah (ﷺ) died, and Abu Bakr (RA) became the Khalifah after him, and some of the ‘Arabs reverted to disbelief. ‘Umar said to Abu Bakr (RA): ‘How can you fight the people when the Messenger of Allah (ﷺ) said: “I have been commanded to fight the people until they say La ilaha illallah (there is none worthy of worship but Allah). Whoever says La ilaha illallah, his wealth and his life are safe from me, unless he deserves a legal punishment justly, and his reckoning will be with Allah?” Abu Bakr (RA) said: ‘I will fight anyone who separates prayer and Zakah; Zakah is the compulsory right to be taken from wealth. By Allah, if they withhold from me a rope that they used to give to the Messenger of Allah (ﷺ) I will fight them for withholding it.’ ‘Umar (RA), said: ‘By Allah, it was as if I saw that Allah has opened the heart of Abu Bakr (RA) for fighting, and I knew that it was the truth.” (Sahih)