Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: The Ruler Supplicating For Blessings Upon The Giver Of Sadaqah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2459.
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کے پاس کوئی قوم اپنے مالوں کی زکاۃ لے کر آتی تو آپ فرماتے ہیں: ”اے اللہ! فلاں کی آل پر رحمت نازل فرما۔“ میرے والد محترم آپ کے پاس اپنی زکاۃ لے کر گئے تو آپ نے فرمایا: اے اللہ!”ابو اوفیٰ کے خاندان پر رحمت نازل فرما۔“
تشریح:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا چونکہ موجب رحمت تھی، اس لیے آپ کو خصوصی حکم دیا گیا کہ جب کوئی زکاۃ لے کر آئے تو اس کے لیے رحمت کی دعا فرمائیں۔ اس سے انھیں دلی سکون حاصل ہوگا۔ اور اللہ کی رحمت مستزاد ہوگی۔ آج کل یہ فریضہ حکام کے بجائے علماء پر لاگو ہوتا ہے کیونکہ حکومت زکاۃ وصول نہیں کرتی۔ ویسے بھی [أنَّالعلماءَ ورثةُ الأنبياءِ]”علماء انبیاء کے وارث ہیں۔“(صحیح البخاري، العلم (معلقاً باب: ۱۰، وسنن ابي داود، العلم، حدیث: ۳۶۴۱)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2460
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2458
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2461
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کے پاس کوئی قوم اپنے مالوں کی زکاۃ لے کر آتی تو آپ فرماتے ہیں: ”اے اللہ! فلاں کی آل پر رحمت نازل فرما۔“ میرے والد محترم آپ کے پاس اپنی زکاۃ لے کر گئے تو آپ نے فرمایا: اے اللہ!”ابو اوفیٰ کے خاندان پر رحمت نازل فرما۔“
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا چونکہ موجب رحمت تھی، اس لیے آپ کو خصوصی حکم دیا گیا کہ جب کوئی زکاۃ لے کر آئے تو اس کے لیے رحمت کی دعا فرمائیں۔ اس سے انھیں دلی سکون حاصل ہوگا۔ اور اللہ کی رحمت مستزاد ہوگی۔ آج کل یہ فریضہ حکام کے بجائے علماء پر لاگو ہوتا ہے کیونکہ حکومت زکاۃ وصول نہیں کرتی۔ ویسے بھی [أنَّالعلماءَ ورثةُ الأنبياءِ]”علماء انبیاء کے وارث ہیں۔“(صحیح البخاري، العلم (معلقاً باب: ۱۰، وسنن ابي داود، العلم، حدیث: ۳۶۴۱)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن ابی اوفی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جب کوئی قوم اپنا صدقہ لے کر آتی تو آپ فرماتے: ”اے اللہ! فلاں کے آل اولاد) پر رحمت بھیج“ (چنانچہ) جب میرے والد اپنا صدقہ لے کر آپ کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا: ”اے اللہ! آل ابی اوفی پر رحمت بھیج۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that ‘Abdullah bin Abi Awfa said: “When people brought their Zakah to him, the Messenger of Allah (ﷺ) would say: Allah, send salah upon the family of so-and-so.’ My father brought his Sadaqah to him and he said: Allah, send salah upon the family of Abu Awfa.” (Sahih)