Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Zakah On Bees)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2499.
حضرت عمرو بن شعیب کے پردادا (حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ ) بیان کرتے ہیں کہ حضرت بلال ؓ رسول اللہﷺ کے پاس اپنے شہد کی زکاۃ لے کر آئے اور آپ سے عرض کیا کہ آپ (شہد والی) وادی سلبہ ان کے لیے مخصوص فرما دیں۔ رسول اللہﷺ نے وہ وادی ان کے لیے مخصوص فرما دی، پھر جب حضرت عمر بن خطاب ؓ خلیفہ بنے تو (وہاں کے حاکم) سفیان بن وہب نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے اس بارے میں دریافت کرنے کے لیے خط لکھا تو حضرت عمر ؓ نے جواباً لکھا کہ اگر وہ تجھے اپنے شہد کا عشر ادا کرتے رہیں جو رسول اللہﷺ کو ادا کیا کرتے تھے تو وادی سلبہ ان کے لیے مخصوص رکھو ورنہ یہ بارشی مکھی (کا شہد) ہے، جو چاہے اسے کھائے۔
تشریح:
(۱) شہد میں زکاۃ اختلافی مسئلہ ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ شہد میں عشر کے قائل ہیں کیونکہ اس بارے میں کچھ احادیث منقول ہیں، اگرچہ بعض میں کلام ہے مگر مجموعی طور پر قوی ہو جاتی ہیں، لہٰذا وہ قابل حجت ہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ وغیرہ نے شہد میں عشر کی روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ مزید تفصیل اور طرق وشواہد کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (إرواء الغلیل، رقم الحدیث: ۸۱۰) امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تو ہر قلیل وکثیر شہد میں عشر کے قائل ہیں۔ لیکن یہ موقف درست نہیں کیونکہ انھی احادیث میں اس کا نصاب بھی دس مشکیزے بتایا گیا ہے۔ اور یہی راجح ہے۔ امام مالک، امام شافعی اور امام بخاری رحمہم اللہ شہد میں عشر کے قائل نہیں کیونکہ ان کے نزدیک مذکورہ روایات ضعیف ہیں، نیز اس باب میں مذکورہ حدیث میں ایک علاقہ حضرت ہلال رضی اللہ عنہ کے لیے مخصوص کرنے کے عوض شہد کا ایک حصہ وصول کرنے کا ذکر ہے۔ جس سے لگتا ہے کہ اگر علاقہ مخصوص نہ کیا جاتا تو عشر کا مطالبہ نہ ہوتا جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان سے معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ چونکہ علاقہ مخصوص کرنے کی وجہ سے ان کے پاس شہد کی کثیر مقدار جمع ہو جاتی تھی، لہٰذا ان پر زکاۃ واجب تھی جبکہ معمولی مقدار میں شہد حاصل کرنے والے پر زکاۃ (عشر) واجب نہیں، جس طرح دوسری عشری چیزوں میں ہے۔ بہرحال تجارتی بنیادوں پر شہد کا وسیع کاروبار کرنے والوں پر زکاۃ لاگو ہوگی۔ (2) ”بارشی مکھی۔“ کیونکہ بارش کا اس کی افزائش سے گہرا تعلق ہے، اسی لیے بارشی موسم میں مکھی زیادہ ہوتی ہے، یا جن چیزوں پر اس مکھی کا گزارہ ہوتا ہے، وہ بارش ہی سے اگتی اور بڑھتی ہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن) .
إسناده: حدثنا أحمد بن أبي شعيب الحَرَّاني: ثنا موسى بن أعْيَنَ عن عمرو
ابن الحارث المصري عن عمرو بن شعيب.
حدثنا أحمد بن عَبْدَةَ الضَّبيُّ: ثنا المغيرة- ونسبه إلى عبد الرحمن بن
الحارث المخزومي- قال: حدثني أبي عن عمرو بن شعيب... به بالرواية الأخرى.
حدثنا الربيع بن سليمان المؤذِّن: ثنا ابن وهب: أخبرني أسامة بن زيد عن
عمرو بن شعيب... بمعنى الغيرة.
قلت: وهذا إسناد حسن؛ لأن مداره على عمرو بن شعيب.
وقد روي مرسلاً، ولا تعارض بينه وبين الموصول، كما بينته في "الإرواء"
(810) ، وقد خرجت الحديث هناك، فلا داعي للإعادة.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2500
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2498
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2501
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت عمرو بن شعیب کے پردادا (حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ ) بیان کرتے ہیں کہ حضرت بلال ؓ رسول اللہﷺ کے پاس اپنے شہد کی زکاۃ لے کر آئے اور آپ سے عرض کیا کہ آپ (شہد والی) وادی سلبہ ان کے لیے مخصوص فرما دیں۔ رسول اللہﷺ نے وہ وادی ان کے لیے مخصوص فرما دی، پھر جب حضرت عمر بن خطاب ؓ خلیفہ بنے تو (وہاں کے حاکم) سفیان بن وہب نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے اس بارے میں دریافت کرنے کے لیے خط لکھا تو حضرت عمر ؓ نے جواباً لکھا کہ اگر وہ تجھے اپنے شہد کا عشر ادا کرتے رہیں جو رسول اللہﷺ کو ادا کیا کرتے تھے تو وادی سلبہ ان کے لیے مخصوص رکھو ورنہ یہ بارشی مکھی (کا شہد) ہے، جو چاہے اسے کھائے۔
حدیث حاشیہ:
(۱) شہد میں زکاۃ اختلافی مسئلہ ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ شہد میں عشر کے قائل ہیں کیونکہ اس بارے میں کچھ احادیث منقول ہیں، اگرچہ بعض میں کلام ہے مگر مجموعی طور پر قوی ہو جاتی ہیں، لہٰذا وہ قابل حجت ہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ وغیرہ نے شہد میں عشر کی روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ مزید تفصیل اور طرق وشواہد کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (إرواء الغلیل، رقم الحدیث: ۸۱۰) امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تو ہر قلیل وکثیر شہد میں عشر کے قائل ہیں۔ لیکن یہ موقف درست نہیں کیونکہ انھی احادیث میں اس کا نصاب بھی دس مشکیزے بتایا گیا ہے۔ اور یہی راجح ہے۔ امام مالک، امام شافعی اور امام بخاری رحمہم اللہ شہد میں عشر کے قائل نہیں کیونکہ ان کے نزدیک مذکورہ روایات ضعیف ہیں، نیز اس باب میں مذکورہ حدیث میں ایک علاقہ حضرت ہلال رضی اللہ عنہ کے لیے مخصوص کرنے کے عوض شہد کا ایک حصہ وصول کرنے کا ذکر ہے۔ جس سے لگتا ہے کہ اگر علاقہ مخصوص نہ کیا جاتا تو عشر کا مطالبہ نہ ہوتا جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان سے معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ چونکہ علاقہ مخصوص کرنے کی وجہ سے ان کے پاس شہد کی کثیر مقدار جمع ہو جاتی تھی، لہٰذا ان پر زکاۃ واجب تھی جبکہ معمولی مقدار میں شہد حاصل کرنے والے پر زکاۃ (عشر) واجب نہیں، جس طرح دوسری عشری چیزوں میں ہے۔ بہرحال تجارتی بنیادوں پر شہد کا وسیع کاروبار کرنے والوں پر زکاۃ لاگو ہوگی۔ (2) ”بارشی مکھی۔“ کیونکہ بارش کا اس کی افزائش سے گہرا تعلق ہے، اسی لیے بارشی موسم میں مکھی زیادہ ہوتی ہے، یا جن چیزوں پر اس مکھی کا گزارہ ہوتا ہے، وہ بارش ہی سے اگتی اور بڑھتی ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہلال ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس اپنے شہد کا دسواں حصہ لے کر آئے، اور آپ سے درخواست کی کہ آپ اس وادی کو جسے سلبہ کہا جاتا ہے ان کے لیے خاص کر دیں (اس پر کسی اور کا دعویٰ نہ رہے) تو رسول اللہ ﷺ نے یہ مذکورہ وادی ان کے لیے مخصوص فرما دی۔ پھر جب عمر بن خطاب ؓ خلیفہ ہوئے تو سفیان بن وھب نے عمر بن خطاب ؓ کو لکھا، وہ ان سے پوچھ رہے تھے (کہ یہ وادی ہلال ؓ کے پاس رہنے دی جائے یا نہیں) تو عمر ؓ نے جواب لکھا: اگر وہ اپنے شہد کا دسواں حصہ جو وہ رسول اللہ ﷺ کو دیتے تھے ہمیں دیتے ہیں تو ”سلبہ“ کو انہیں کے پاس رہنے دیں، ورنہ وہ برسات کی مکھیاں ہیں (پھول و پودوں کا رس چوس کر شہد بناتی ہیں) جو چاہے اسے کھائے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from ‘Amr bin Shuaib, from his father, that his grandfather said: “Hilal came to the Messenger of Allah (ﷺ) with one-tenth of his honey and asked him to protect a valley for him that was called Salabah. The Messenger of Allah (ﷺ) protected that valley for him. When Umar bin Al Khattab became the Khalifah, Sufyan bin Wahb wrote to ‘Umar and asked him (about that), and ‘Umar wrote: ‘If he gives me what he used to give to the Messenger of Allah (ﷺ), one-tenth of his honey, I will protect Salabah for him, otherwise they are just bees and anyone who wants to eat of it.” (Hasan)