Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: The Obligation Of Zakah Of Ramadan)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2500.
حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے رمضان المبارک کا صدقہ (صدقۃ الفطر) ہر آزاد، غلام، مذکر اور مؤنث پر کھجور اور جو کا ایک صاع مقرر فرمایا تھا۔ بعد میں لوگوں نے اس کی جگہ گندم کا نصف صاع ٹھہرا لیا۔
تشریح:
(1) اس صدقے کو زکاۃ رمضان اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ رمضان المبارک کے روزوں کی وجہ سے واجب ہوتا ہے اور صدقۃ الفطر، اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کی ادائیگی افطار، یعنی رمضان المبارک کے اختتام پر واجب ہوتی ہے، جیسے اس عید کو عید الفطر کہتے ہیں۔ (2) غلام پر بھی صدقۃ الفطر واجب ہے، البتہ غلام کی طرف سے ادائیگی اس کا مالک کرے گا بشرطیکہ مالک مسلمان ہو۔ اگر مالک ادا نہیں کرتا اور غلام استطاعت رکھتا ہے تو وہ خود ادا کر دے گا۔ اگر مالک کافر ہے اور غلام استطاعت نہیں رکھتا تو پھر اسے معاف ہے کیونکہ ﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلا وُسْعَهَا﴾ (3) ”کھجور اور جو کا ایک صاع۔“ اس دور میں عرب میں عام خوراک یہی دو چیزیں تھیں، لہٰذا ان میں ایک صاع مقرر فرما دیا۔ گندم کا عام رواج نہ تھا، بعد میں رفاہیت کا دور آیا تو لوگوں نے عموماً گندم کھانی شروع کر دی لیکن گندم کھجور اور جو کی نسبت بہت مہنگی تھی، اس لیے قیمت کا حساب لگاتے ہوئے گندم کے نصف صاع کو کھجور اور جو کے ایک صاع کے برابر قرار دیا گیا۔ یہ ایک لحاظ سے گنجائش تھی اور اسے گنجائش ہی سمجھنا چاہیے کیونکہ فی زمانہ ہمارے ہاں گندم کھجور سے کافی سستی ہے، اس لیے اب اس کا ایک صاع نکالنا ہی افضل ہے اور یہ حکمت کے عین موافق بھی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2501
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2499
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2502
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے رمضان المبارک کا صدقہ (صدقۃ الفطر) ہر آزاد، غلام، مذکر اور مؤنث پر کھجور اور جو کا ایک صاع مقرر فرمایا تھا۔ بعد میں لوگوں نے اس کی جگہ گندم کا نصف صاع ٹھہرا لیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس صدقے کو زکاۃ رمضان اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ رمضان المبارک کے روزوں کی وجہ سے واجب ہوتا ہے اور صدقۃ الفطر، اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کی ادائیگی افطار، یعنی رمضان المبارک کے اختتام پر واجب ہوتی ہے، جیسے اس عید کو عید الفطر کہتے ہیں۔ (2) غلام پر بھی صدقۃ الفطر واجب ہے، البتہ غلام کی طرف سے ادائیگی اس کا مالک کرے گا بشرطیکہ مالک مسلمان ہو۔ اگر مالک ادا نہیں کرتا اور غلام استطاعت رکھتا ہے تو وہ خود ادا کر دے گا۔ اگر مالک کافر ہے اور غلام استطاعت نہیں رکھتا تو پھر اسے معاف ہے کیونکہ ﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلا وُسْعَهَا﴾ (3) ”کھجور اور جو کا ایک صاع۔“ اس دور میں عرب میں عام خوراک یہی دو چیزیں تھیں، لہٰذا ان میں ایک صاع مقرر فرما دیا۔ گندم کا عام رواج نہ تھا، بعد میں رفاہیت کا دور آیا تو لوگوں نے عموماً گندم کھانی شروع کر دی لیکن گندم کھجور اور جو کی نسبت بہت مہنگی تھی، اس لیے قیمت کا حساب لگاتے ہوئے گندم کے نصف صاع کو کھجور اور جو کے ایک صاع کے برابر قرار دیا گیا۔ یہ ایک لحاظ سے گنجائش تھی اور اسے گنجائش ہی سمجھنا چاہیے کیونکہ فی زمانہ ہمارے ہاں گندم کھجور سے کافی سستی ہے، اس لیے اب اس کا ایک صاع نکالنا ہی افضل ہے اور یہ حکمت کے عین موافق بھی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے آزاد، غلام، مرد اور عورت ہر ایک پر رمضان کی زکاۃ (صدقہ فطر) ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو فرض کی ہے، پھر اس کے برابر لوگوں نے نصف صاع گیہوں کو قرار دے لیا.۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : کیونکہ اس وقت (عہد معاویہ رضی الله عنہ میں) نصف صاع گیہوں قیمت میں جو کے ایک صاع کے برابر ہو گیا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn ‘Umar said: “The Messenger of Allah (ﷺ) enjoined Zakah of Ramadan upon the free and the slave, male and female, a Sa' of dates or a Sa’ of barley, so the people considered that equivalent to half a Sa’ of wheat.” (Sahih)