باب: غلام اور لونڈی پر بھی زکاۃ رمضان(صدقۃ الفطر)فرض ہے
)
Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: The Obligation Of Zakah Of Ramadan For Slaves)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2501.
حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے صدقۃ الفطر ہر مذکر، مونث، آزاد اور غلام پر کھجور یا جو کا ایک صاع مقرر فرمایا ہے۔ بعد میں لوگوں نے گندم کے نصف صاع کو اختیار کر لیا۔
تشریح:
(1) صدقۃ الفطر ہر امیر اور غریب پر واجب ہے، جو خود فقیر ونادار ہے وہ اگرچہ لینے کا مستحق ہے لیکن اس کے پاس جو صدقۃ الفطر جمع ہو جائے اس میں سے اپنا صدقہ نکالے، نیز اس کے وجوب کے لیے روزے رکھنا شرط نہیں۔ اگر کسی نے شرعی عذر کی بنا پر روزے نہ رکھے ہوں تو صدقۃ الفطر اس پر بھی واجب ہے حتیٰ کہ نومولود بچے پر بھی اور کھوسٹ بوڑھے پر بھی، مریض پر بھی اور مسافر پر بھی۔ (2) ایک صاع ۲ کلو ۱۰۰ گرام ہے جسے تقریباً اڑھائی کلو کہتے ہیں۔ تفصیل ان شاء اللہ آگے (حدیث: ۲۵۱۵ کے) فوائد میں آئے گی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2502
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2500
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2503
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے صدقۃ الفطر ہر مذکر، مونث، آزاد اور غلام پر کھجور یا جو کا ایک صاع مقرر فرمایا ہے۔ بعد میں لوگوں نے گندم کے نصف صاع کو اختیار کر لیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) صدقۃ الفطر ہر امیر اور غریب پر واجب ہے، جو خود فقیر ونادار ہے وہ اگرچہ لینے کا مستحق ہے لیکن اس کے پاس جو صدقۃ الفطر جمع ہو جائے اس میں سے اپنا صدقہ نکالے، نیز اس کے وجوب کے لیے روزے رکھنا شرط نہیں۔ اگر کسی نے شرعی عذر کی بنا پر روزے نہ رکھے ہوں تو صدقۃ الفطر اس پر بھی واجب ہے حتیٰ کہ نومولود بچے پر بھی اور کھوسٹ بوڑھے پر بھی، مریض پر بھی اور مسافر پر بھی۔ (2) ایک صاع ۲ کلو ۱۰۰ گرام ہے جسے تقریباً اڑھائی کلو کہتے ہیں۔ تفصیل ان شاء اللہ آگے (حدیث: ۲۵۱۵ کے) فوائد میں آئے گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر ہر مرد و عورت، آزاد اور غلام پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو فرض کیا ہے، پھر لوگوں نے آدھا صاع گیہوں کو اس کے برابر ٹھہرا لیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn ‘Umar said: “The Messenger of Allah (ﷺ) enjoined Sadaqatul Fitr upon male and female, free and slave; a Sa’ of dates or a Sd’ of barley.” He said: “The people considered that equivalent to half a Sa’of wheat.” (Sahih)