Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: The Obligation Of Zakah Of Ramadan For Children)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2504.
حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے صدقہ فطر ہر چھوٹے، بڑے، مذکر، مونث، آزاد اور غلام مسلمان پر کھجور اور جو سے ایک صاع مقرر فرمایا ہے اور حکم دیا ہے کہ اس کی ادائیگی نماز عید کے لیے جانے سے پہلے کی جائے۔
تشریح:
(1) صدقہ فطر کی ادائیگی نماز عید فطر سے قبل واجب ہے نماز کے بعد ادا کیا ہوا صدقہ، صدقہ فطر نہیں ہوگا اور تاخیر کرنے والا شخص اس واجب کی ادائیگی سے محروم رہے گا۔ سنن ابوداؤد میں حدیث ہے کہ جس نے صدقہ فطر عید سے پہلے ادا کیا تو وہ مقبول ہے اور اگر عید کے بعد ادا کیا گیا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ متصور ہوگا۔ دیکھیے (سنن أبي داؤد، الزکاة، حدیث: ۱۶۰۹) (2) صدقۃ الفطر وقت سے پہلے بھی دیا جا سکتا ہے کیونکہ مقصد تو فقیر کی حاجت برآری ہے، خصوصاً اگر صدقۃ الفطر اجتماعی طور پر جمع کر کے تقسیم کرنا مقصود ہو تو لازماً وقت سے پہلے ہی اکٹھا کیا جائے گا۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ بعض صحابہ سے چند دن قبل صدقۃ الفطر جمع کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2505
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2503
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2506
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے صدقہ فطر ہر چھوٹے، بڑے، مذکر، مونث، آزاد اور غلام مسلمان پر کھجور اور جو سے ایک صاع مقرر فرمایا ہے اور حکم دیا ہے کہ اس کی ادائیگی نماز عید کے لیے جانے سے پہلے کی جائے۔
حدیث حاشیہ:
(1) صدقہ فطر کی ادائیگی نماز عید فطر سے قبل واجب ہے نماز کے بعد ادا کیا ہوا صدقہ، صدقہ فطر نہیں ہوگا اور تاخیر کرنے والا شخص اس واجب کی ادائیگی سے محروم رہے گا۔ سنن ابوداؤد میں حدیث ہے کہ جس نے صدقہ فطر عید سے پہلے ادا کیا تو وہ مقبول ہے اور اگر عید کے بعد ادا کیا گیا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ متصور ہوگا۔ دیکھیے (سنن أبي داؤد، الزکاة، حدیث: ۱۶۰۹) (2) صدقۃ الفطر وقت سے پہلے بھی دیا جا سکتا ہے کیونکہ مقصد تو فقیر کی حاجت برآری ہے، خصوصاً اگر صدقۃ الفطر اجتماعی طور پر جمع کر کے تقسیم کرنا مقصود ہو تو لازماً وقت سے پہلے ہی اکٹھا کیا جائے گا۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ بعض صحابہ سے چند دن قبل صدقۃ الفطر جمع کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے زکاۃ فطر مسلمانوں میں سے ہر آزاد، غلام مرد، عورت چھوٹے اور بڑے پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو فرض کیا ہے، اور حکم دیا ہے کہ اسے لوگوں کے (عید کی) نماز کے لیے (گھر سے) نکلنے سے پہلے ادا کر دیا جائے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn ‘Umar said: “The Messenger of Allah (ﷺ) enjoined Zakatul-Fitr; a Sa’ of dates or a Sa' of barley, upon the free person and the slave, male and female, young and old, among the Muslims. He commanded that it be given before the people went out to the (‘Id) prayer.” (Sahih)