Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: The Measure Of Zakatul-Fitr)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2508.
حضرت ابن عباس ؓ نے، جب وہ بصرہ کے حاکم تھے، ماہ رمضان المبارک کے آخر میں (خطبہ دیا) فرمایا: اپنے روزوں کی زکاۃ (صدقۃ الفطر) نکالو۔ لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ آپ نے فرمایا: یہاں جو مدینہ منورہ کے لوگ ہیں اٹھیں اور اپنے (بصری) بھائیوں کو تعلیم دیں کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ صدقہ ہر مذکر و مؤنث اور آزاد وغلام پر کھجور اور جو کا ایک صاع اور گندم کا آدھا صاع فرض کیا ہے۔ تولوگ اٹھے۔ ہشام نے حمید کی مخالفت کی ہے، اسے نے (حسن کے بجائے) ابن سیرین کا نام لیا ہے۔
تشریح:
(1) مذکورہ روایت کی صحت اور ضعف کی بابت تحقیق حدیث: ۱۵۸۱ کے فوائد میں تفصیل سے گزر چکی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ روایت میں بیان کردہ مسئلہ درست اور صحیح ہے۔ (2) بصرے میں سب لوگ اتنے تعلیم یافتہ نہ تھے جبکہ مدینے کے لوگ عالم تھے کیونکہ مدینہ منورہ علم کا مرکز تھا۔ (3) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بصرے کے حاکم رہے۔ (4) اس روایت سے ظاہراً یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گندم سے نصف صاع مقرر فرمایا تھا۔ لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔ جبکہ بعض دیگر روایات سے تصدیق ہوتی ہے کہ نصف صاع بھی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمایا تھا۔ یہ صرف سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ہی کا اجتہاد نہ تھا، نہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ عہد نبوی میں گندم کا وجود نہ تھا، نصف صاع گندم کی روایات مجموعی اعتبار سے واقعی قابل استناد ہیں۔ دیکھیے: (الصحیحة: ۳/ ۱۷۱) لہٰذا نصف صاع گندم کی ادائیگی بھی درست ہے۔ بہرحال اس سب کے باوجود، خصوصاً ہمارے خطے پاک وہند میں، ایک صاع گندم دینا ہی اولیٰ وافضل ہے کیونکہ اس پر صحابہ کرامؓ کا عمل تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اور اس کے بعد بھی۔ (واللہ أعلم)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2509
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2507
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2510
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ نے، جب وہ بصرہ کے حاکم تھے، ماہ رمضان المبارک کے آخر میں (خطبہ دیا) فرمایا: اپنے روزوں کی زکاۃ (صدقۃ الفطر) نکالو۔ لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ آپ نے فرمایا: یہاں جو مدینہ منورہ کے لوگ ہیں اٹھیں اور اپنے (بصری) بھائیوں کو تعلیم دیں کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ صدقہ ہر مذکر و مؤنث اور آزاد وغلام پر کھجور اور جو کا ایک صاع اور گندم کا آدھا صاع فرض کیا ہے۔ تولوگ اٹھے۔ ہشام نے حمید کی مخالفت کی ہے، اسے نے (حسن کے بجائے) ابن سیرین کا نام لیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) مذکورہ روایت کی صحت اور ضعف کی بابت تحقیق حدیث: ۱۵۸۱ کے فوائد میں تفصیل سے گزر چکی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ روایت میں بیان کردہ مسئلہ درست اور صحیح ہے۔ (2) بصرے میں سب لوگ اتنے تعلیم یافتہ نہ تھے جبکہ مدینے کے لوگ عالم تھے کیونکہ مدینہ منورہ علم کا مرکز تھا۔ (3) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بصرے کے حاکم رہے۔ (4) اس روایت سے ظاہراً یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گندم سے نصف صاع مقرر فرمایا تھا۔ لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔ جبکہ بعض دیگر روایات سے تصدیق ہوتی ہے کہ نصف صاع بھی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمایا تھا۔ یہ صرف سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ہی کا اجتہاد نہ تھا، نہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ عہد نبوی میں گندم کا وجود نہ تھا، نصف صاع گندم کی روایات مجموعی اعتبار سے واقعی قابل استناد ہیں۔ دیکھیے: (الصحیحة: ۳/ ۱۷۱) لہٰذا نصف صاع گندم کی ادائیگی بھی درست ہے۔ بہرحال اس سب کے باوجود، خصوصاً ہمارے خطے پاک وہند میں، ایک صاع گندم دینا ہی اولیٰ وافضل ہے کیونکہ اس پر صحابہ کرامؓ کا عمل تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اور اس کے بعد بھی۔ (واللہ أعلم)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حسن بصری کہتے ہیں کہ ابن عباس ؓ نے رمضان کے مہینے کے آخر میں کہا (جب وہ بصرہ کے امیر تھے): تم اپنے روزوں کی زکاۃ نکالو، تو لوگ ایک دوسرے کو تکنے لگے تو انہوں نے پوچھا: مدینہ والوں میں سے یہاں کون کون ہے (جو بھی ہو) اٹھ جاؤ، اور اپنے بھائیوں کو بتاؤ، کیونکہ یہ لوگ نہیں جانتے کہ اس زکاۃ کو رسول اللہ ﷺ نے ہر مرد، عورت، آزاد اور غلام پر ایک صاع جو یا کھجور، یا آدھا صاع گیہوں فرض کیا ہے، تو لوگ اٹھے (اور انہوں نے لوگوں کو بتایا)۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: ہشام نے حمید کی مخالفت کی ہے، انہوں نے «عن محمد بن سيرين» کہا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
When he was the governor of Al-Basrah, at the end of the month, Ibn ‘Abbas said: “Give Zakah of your fast.” The people looked at one another, so he said: “Whoever is here from the people of Al-Madinah, get up and teach your brothers, for they do not know that this Zakah was enjoined by the Messenger of Allah (ﷺ) upon every male and female, free and slave, a Sa’ of barley or dates, or half a Sa’ of wheat.” So they got up. Hishám contradicted him, he said:“From Muhammad bin Sirin”.