Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Taking Zakah From One Land To Another)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2522.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے حضرت معاذ بن جبل ؓ کو یمن کی طرف (حاکم بنا کر) بھیجا اور فرمایا: ”تو وہاں اہل کتاب (یہودیوں) کی کثیر جماعت کی طرف جا رہا ہے، لہٰذا انھیں دعوت دینا کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں (محمدﷺ) اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں۔ اگر وہ تیری یہ بات مان لیں تو انھیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر پانچ نمازیں ہر دن رات میں فرض کی ہیں۔ اگر وہ تیری یہ بات بھی مان لیں تو بتانا کہ اللہ عزوجل نے ان پر ان کے مالوں میں زکاۃ فرض کی ہے جو ان کے مال دار لوگوں سے لی جائے گی اور ان کے فقیر لوگوں میں تقسیم کی جائے گی۔ اور اگر وہ تیری یہ بات بھی مان لیں تو ان کے عمدہ مال نہ لینا۔ اور مظلوم کی بددعا سے بچنا کیونکہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے میں اس کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں۔ـ“
تشریح:
اصل یہی ہے کہ زکاۃ کو اسی علاقے میں تقسیم کیا جائے الا یہ کہ وہ زائد ہو یا دوسرے لوگ زیادہ مستحق ہوں۔ خصوصاً صدقۃ الفطر تو اپنے علاقے ہی میں تقسیم ہونا چاہیے کیونکہ اس کی مقدار کم ہوتی ہے۔ اس علاقے کے مستحقین کی ضروریات کے لیے کافی نہ ہوگا، نیز یہ وقتی صدقہ ہے تاکہ فقراء بھی بے فکر ہو کر عید میں شامل ہو جائیں۔ بخلاف اس کے زکاۃ ایک مستقل فنڈ ہے اور اس کے مصارف بھی زیادہ ہیں، مثلاً: فی سبیل اللہ، لہٰذا اسے منتقل کرنا ہی پڑتا ہے۔ (باقی مباحث کے لیے دیکھیے، حدیث: ۲۴۳۷)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2523
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2521
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2523
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے حضرت معاذ بن جبل ؓ کو یمن کی طرف (حاکم بنا کر) بھیجا اور فرمایا: ”تو وہاں اہل کتاب (یہودیوں) کی کثیر جماعت کی طرف جا رہا ہے، لہٰذا انھیں دعوت دینا کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں (محمدﷺ) اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں۔ اگر وہ تیری یہ بات مان لیں تو انھیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر پانچ نمازیں ہر دن رات میں فرض کی ہیں۔ اگر وہ تیری یہ بات بھی مان لیں تو بتانا کہ اللہ عزوجل نے ان پر ان کے مالوں میں زکاۃ فرض کی ہے جو ان کے مال دار لوگوں سے لی جائے گی اور ان کے فقیر لوگوں میں تقسیم کی جائے گی۔ اور اگر وہ تیری یہ بات بھی مان لیں تو ان کے عمدہ مال نہ لینا۔ اور مظلوم کی بددعا سے بچنا کیونکہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے میں اس کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں۔ـ“
حدیث حاشیہ:
اصل یہی ہے کہ زکاۃ کو اسی علاقے میں تقسیم کیا جائے الا یہ کہ وہ زائد ہو یا دوسرے لوگ زیادہ مستحق ہوں۔ خصوصاً صدقۃ الفطر تو اپنے علاقے ہی میں تقسیم ہونا چاہیے کیونکہ اس کی مقدار کم ہوتی ہے۔ اس علاقے کے مستحقین کی ضروریات کے لیے کافی نہ ہوگا، نیز یہ وقتی صدقہ ہے تاکہ فقراء بھی بے فکر ہو کر عید میں شامل ہو جائیں۔ بخلاف اس کے زکاۃ ایک مستقل فنڈ ہے اور اس کے مصارف بھی زیادہ ہیں، مثلاً: فی سبیل اللہ، لہٰذا اسے منتقل کرنا ہی پڑتا ہے۔ (باقی مباحث کے لیے دیکھیے، حدیث: ۲۴۳۷)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے معاذ بن جبل ؓ کو یمن بھیجا تو فرمایا: ”تم ایک ایسی قوم کے پاس جا رہے ہو جو اہل کتاب ہیں، تم انہیں اس بات کی گواہی کی دعوت دو کہ اللہ کے علاوہ کوئی حقیقی معبود نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ عزوجل نے ان پر ہر دن اور رات میں پانچ (وقت کی) نمازیں فرض کی ہیں، اگر وہ تمہاری یہ بات (بھی) مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ عزوجل نے ان کے مالوں میں زکاۃ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی، اور ان کے محتاجوں میں تقسیم کر دی جائے گی، اگر وہ تمہاری یہ بات (بھی) مان لیں تو ان کے اچھے و عمدہ مال لینے سے بچو، اور مظلوم کی بد دعا سے بچو کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn ‘Abbas that the Prophet (ﷺ) sent Muadh bin Jabal to Yemen and said: “You are going to some people from among the People of the Book. Call them to bear witness that there is none worthy of worship except Allah and that I am the Messenger of Allah. If they obey you in that, then teach them that Allah has enjoined upon them five prayers every day and night. If they obey you in that, then teach them that Allah has enjoined upon them Sadaqah (Zakah) from their wealth, to be taken from their rich and given to their poor. If they obey you in that, then do not touch the most precious of their wealth and fear the supplication of the one who has been wronged, for there is no barrier between it and Allah, the Mighty and sublime.” (Sahih)