Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Which Of Them Is The Upper Hand?)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2532.
حضرت طارق محاربی ؓ سے مروی ہے کہ ہم مدینہ منورہ آئے تو رسول اللہﷺ منبر پر کھڑے لو گوں سے خطاب فرما رہے تھے۔ آپ فرما رہے تھے: ”دینے والے کا ہاتھ اونچا ہوتا ہے اور سب سے پہلے تو اسے دے جس کا تو ذمے دار ہے۔ اپنی ماں کو دے، اپنے باپ کو دے، اپنی بہن کو دے، اپنے بھائی کو دے، پھر اپنے قریبی رشتے دار کو دے، پھر اپنے پڑوسی کو دے۔“ یہ حدیث مختصر ہے۔
تشریح:
عقلاً بھی یہی ترتیب ہے کیونکہ جس کا خرچہ ذمے ہو، اس کا تو حق ہے۔ دنیا میں بھی پرسش ہوگی اور آخرت میں بھی، پھر تعلق، رشتہ داری اور قرب کا لحاظ رکھا جائے گا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2533
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2531
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2533
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت طارق محاربی ؓ سے مروی ہے کہ ہم مدینہ منورہ آئے تو رسول اللہﷺ منبر پر کھڑے لو گوں سے خطاب فرما رہے تھے۔ آپ فرما رہے تھے: ”دینے والے کا ہاتھ اونچا ہوتا ہے اور سب سے پہلے تو اسے دے جس کا تو ذمے دار ہے۔ اپنی ماں کو دے، اپنے باپ کو دے، اپنی بہن کو دے، اپنے بھائی کو دے، پھر اپنے قریبی رشتے دار کو دے، پھر اپنے پڑوسی کو دے۔“ یہ حدیث مختصر ہے۔
حدیث حاشیہ:
عقلاً بھی یہی ترتیب ہے کیونکہ جس کا خرچہ ذمے ہو، اس کا تو حق ہے۔ دنیا میں بھی پرسش ہوگی اور آخرت میں بھی، پھر تعلق، رشتہ داری اور قرب کا لحاظ رکھا جائے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
طارق محاربی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم مدینہ آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ منبر پر کھڑے خطبہ دے رہے ہیں آپ فرما رہے ہیں: دینے والے کا ہاتھ اوپر والا ہے، اور پہلے انہیں دو جن کی کفالت و نگہداشت کی ذمہ داری تم پر ہو: پہلے اپنی ماں کو، پھر اپنے باپ کو، پھر اپنی بہن کو، پھر اپنے بھائی کو، پھر اپنے قریبی کو، پھر اس کے بعد کے قریبی کو۔ یہ حدیث ایک لمبی حدیث کا اختصار ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Tariq Al-Muharibi said: “We came to Al Madinah and the Messenger of Allah (ﷺ) was standing on the Minbar addressing the people and saying: ‘The hand which gives is the upper hand. Start with those for whom you are responsible; your mother, your father, your sister, your brother, then the next closest, and the next closest.” (Sahih)