Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Explanation Of That)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2535.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”صدقہ کرو۔“ ایک آدمی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے پاس ایک دینار ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اپنے آپ پر خرچ کر۔“ اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اپنی بیوی پر خرچ کر۔“ اس نے عرض کیا: میرے پاس ایک اور ہے۔ فرمایا: ”اپنی اولاد پر خرچ کر۔“ وہ عرض پرداز ہوا: میرے پاس ایک اور ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اپنے نوکر پر خرچ کر۔“ وہ بولا: میرے پاس ایک اور ہے۔ آپ نے فرمایا: ”پھر تو زیادہ جانتا ہے (کہ کہاں خرچ کرے)۔“
تشریح:
(1) اس حدیث میں تَصَدَّقُوْا کا لفظ ہے، مگر مراد فرض یا نفل صدقہ نہیں بلکہ مطلق خرچ کرنا مراد ہے۔ اس لفظ میں نکتہ یہ ہے کہ مومن کو اپنے واجب اخراجات پر بھی ثواب ملتا ہیے بشرطیکہ حلال مال سے کرے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور ثواب کی نیت رکھے۔ (2) بعض احادیث میں اولاد کو بیوی سے پہلے بیان کیا گیا ہے۔ کوئی فرق نہیں کیونکہ دونوں کے اخراجات یکساں واجب ہیں۔ (3) بیان کردہ ترتیب سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک فرض اخراجات پورے نہ ہوں، آگے صدقہ نہیں کرنا چاہیے۔ اول خویش بعد درویش۔ الا یہ کہ اختیار نہ رہے، مثلاً: مہمان گھر آجائے تو گھر والوں کو بھوکا رکھ کر بھی مہمان نوازی کی جا سکتی ہے۔ گویا یہاں اختیاری صدقے کا بیان ہے۔ (4) ”تو زیادہ جانتا ہے۔“ یعنی پھر تیری مرضی۔ جہاں مناسب سمجھتا ہے خرچ کر۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن، وصححه ابن حبان والحاكم والذهبي) .
إسناده: حدثنا محمد بن كثير: أخبرنا سفيان عن محمد بن عجلان عن
المقبري عن أبي هريرة.
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير محمد بن
عجلان؛ فإنه حسن الحديث كما تقدم مراراً.
والحديث أخرجه النسائي (1/351) ، وأحمد (2/471) من طريق يحيى بن
سعيد عن ابن عجلان... به.
وأخرجه ابن حبان (828) عن الليث عنه.
والحاكم (1/415) من طريق أخرى عن محمد بن كثير، وقال:
" صحيح على شرط مسلم "! ووافقه الذهبي!
وأخرجه البخاري في "الأدب المفرد" (197) ... بإسناد المؤلف.
وله عنده شاهد من حديث جابر (750) .
وفيه أبو رافع إسماعيل بن رافع، وهو ضعيف، وفي متنه نقص، وزيادة
منكرة.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2536
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2534
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2536
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”صدقہ کرو۔“ ایک آدمی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے پاس ایک دینار ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اپنے آپ پر خرچ کر۔“ اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اپنی بیوی پر خرچ کر۔“ اس نے عرض کیا: میرے پاس ایک اور ہے۔ فرمایا: ”اپنی اولاد پر خرچ کر۔“ وہ عرض پرداز ہوا: میرے پاس ایک اور ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اپنے نوکر پر خرچ کر۔“ وہ بولا: میرے پاس ایک اور ہے۔ آپ نے فرمایا: ”پھر تو زیادہ جانتا ہے (کہ کہاں خرچ کرے)۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں تَصَدَّقُوْا کا لفظ ہے، مگر مراد فرض یا نفل صدقہ نہیں بلکہ مطلق خرچ کرنا مراد ہے۔ اس لفظ میں نکتہ یہ ہے کہ مومن کو اپنے واجب اخراجات پر بھی ثواب ملتا ہیے بشرطیکہ حلال مال سے کرے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور ثواب کی نیت رکھے۔ (2) بعض احادیث میں اولاد کو بیوی سے پہلے بیان کیا گیا ہے۔ کوئی فرق نہیں کیونکہ دونوں کے اخراجات یکساں واجب ہیں۔ (3) بیان کردہ ترتیب سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک فرض اخراجات پورے نہ ہوں، آگے صدقہ نہیں کرنا چاہیے۔ اول خویش بعد درویش۔ الا یہ کہ اختیار نہ رہے، مثلاً: مہمان گھر آجائے تو گھر والوں کو بھوکا رکھ کر بھی مہمان نوازی کی جا سکتی ہے۔ گویا یہاں اختیاری صدقے کا بیان ہے۔ (4) ”تو زیادہ جانتا ہے۔“ یعنی پھر تیری مرضی۔ جہاں مناسب سمجھتا ہے خرچ کر۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”صدقہ دو“، ایک آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس ایک دینار ہے، آپ نے فرمایا: ”اسے اپنی ذات پر صدقہ کرو“۱؎ اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اپنی بیوی پر صدقہ کرو“، اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اسے اپنے بیٹے پر صدقہ کرو“، اس نے کہا: میرے پاس ایک اور بھی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اپنے خادم پر صدقہ کر دو“، اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے۔ آپ نے فرمایا: آپ بہتر سمجھنے والے ہیں (جیسی ضرورت سمجھو ویسا کرو)۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی خود اپنی ضروریات میں صدقہ کرو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Hurairah (RA) said: “The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘Give charity.’ A man said: ‘Messenger of Allah (ﷺ), I have a Dinar.’ He said: ‘Spend it on yourself.’ He said: ‘I have another.’ He said: ‘Spend it on your wife.’ He said: ‘I have another.’ He said: ‘Spend it on your son.’ He said: ‘I have another.’ He said: ‘Spend it on your servant.’ He said: ‘I have another.’ He said: ‘You know best (what to do with it).” (Hasan)