Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Which Kind Of Charity Is Best?)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2546.
حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ بنو عذرہ (قبیلے) کے ایک آدمی نے اپنے غلام کو اپنی موت کے بعد آزاد کر دیا۔ یہ بات رسول اللہﷺ کو پہنچی تو آپ نے فرمایا: ”تیرے پاس اس کے علاوہ کوئی اور مال ہے؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”اسے مجھ سے کون خریدے گا؟“ تو حضرت نعیم بن عبداللہ عدوی ؓ نے اسے آٹھ سو درہم میں خرید لیا اور وہ یہ رقم لے کر رسول اللہﷺ کے پاس آئے۔ آپ نے یہ رقم اس شخص کے سپرد کی، پھر فرمایا: ”سب سے پہلے اپنے آپ پر خرچ کر۔ اگر کچھ بچ جائے تو وہ تیرے گھر والوں کے لیے ہے۔ اگر گھر والوں (کی ضروریات) سے کچھ بچ جائے تو وہ تیرے قرابت داروں کے لیے ہے۔ اور اگر تیرے قرابت داروں سے بھی بچ جائے تو پھر تو اسے اپنے آگے اور اپنے دائیں بائیں صدقہ کر۔“
تشریح:
(1) کوئی شخص اپنی زندگی کی حالت میں کہے کہ یہ غلام میرے مرنے کے بعد آزاد ہوگا۔ اسے عربی زبان میں تدبیر کہتے تھے اور اس کا عام رواج تھا۔ شریعت نے بھی اسے تسلیم کیا ہے۔ اس صورت میں اس کی موت کے بعد واقعتا وہ غلام آزاد ہوگا، لیکن اس کی حیثیت وصیت جیسی ہے جس کا نفاذ صرف ایک تہائی ملکیت میں ہو سکتا ہے۔ (2) مذکورہ شخص کے پاس صرف وہ غلام ہی کل مال تھا۔ ظاہر ہے وصیت ایک تہائی مال سے زائد نہیں ہو سکتی، لہٰذا نبیﷺ نے اس کے عمل تدبیر کو اپنے حکم سے توڑ دیا بلکہ اس غلام کو فروخت کر دیا تاکہ اس شخص کی موت کی صورت میں وہ آزاد نہ ہو سکے۔ (3) ایسے غلام کو بیچنا جائز نہیں ہوتا مگر مخصوص حالات میں (جب تدبیر غلط ہو) اسے فروخت کیا جا سکتا ہے۔ حکومت بیچنے یا وہ شخص خود، مگر اس سے یہ استدلال درست نہیں کہ ہر مدبر کو بیچنا درست ہے۔ تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔ (4) ”آگے اور دائیں بائیں۔“ یعنی جہاں مناسب سمجھے صدقہ کر۔ یہ ایک محاورہ ہے ظاہر الفاظ مراد نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2547
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2545
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2547
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ بنو عذرہ (قبیلے) کے ایک آدمی نے اپنے غلام کو اپنی موت کے بعد آزاد کر دیا۔ یہ بات رسول اللہﷺ کو پہنچی تو آپ نے فرمایا: ”تیرے پاس اس کے علاوہ کوئی اور مال ہے؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”اسے مجھ سے کون خریدے گا؟“ تو حضرت نعیم بن عبداللہ عدوی ؓ نے اسے آٹھ سو درہم میں خرید لیا اور وہ یہ رقم لے کر رسول اللہﷺ کے پاس آئے۔ آپ نے یہ رقم اس شخص کے سپرد کی، پھر فرمایا: ”سب سے پہلے اپنے آپ پر خرچ کر۔ اگر کچھ بچ جائے تو وہ تیرے گھر والوں کے لیے ہے۔ اگر گھر والوں (کی ضروریات) سے کچھ بچ جائے تو وہ تیرے قرابت داروں کے لیے ہے۔ اور اگر تیرے قرابت داروں سے بھی بچ جائے تو پھر تو اسے اپنے آگے اور اپنے دائیں بائیں صدقہ کر۔“
حدیث حاشیہ:
(1) کوئی شخص اپنی زندگی کی حالت میں کہے کہ یہ غلام میرے مرنے کے بعد آزاد ہوگا۔ اسے عربی زبان میں تدبیر کہتے تھے اور اس کا عام رواج تھا۔ شریعت نے بھی اسے تسلیم کیا ہے۔ اس صورت میں اس کی موت کے بعد واقعتا وہ غلام آزاد ہوگا، لیکن اس کی حیثیت وصیت جیسی ہے جس کا نفاذ صرف ایک تہائی ملکیت میں ہو سکتا ہے۔ (2) مذکورہ شخص کے پاس صرف وہ غلام ہی کل مال تھا۔ ظاہر ہے وصیت ایک تہائی مال سے زائد نہیں ہو سکتی، لہٰذا نبیﷺ نے اس کے عمل تدبیر کو اپنے حکم سے توڑ دیا بلکہ اس غلام کو فروخت کر دیا تاکہ اس شخص کی موت کی صورت میں وہ آزاد نہ ہو سکے۔ (3) ایسے غلام کو بیچنا جائز نہیں ہوتا مگر مخصوص حالات میں (جب تدبیر غلط ہو) اسے فروخت کیا جا سکتا ہے۔ حکومت بیچنے یا وہ شخص خود، مگر اس سے یہ استدلال درست نہیں کہ ہر مدبر کو بیچنا درست ہے۔ تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔ (4) ”آگے اور دائیں بائیں۔“ یعنی جہاں مناسب سمجھے صدقہ کر۔ یہ ایک محاورہ ہے ظاہر الفاظ مراد نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ بنی عذرہ کے ایک شخص نے اپنے غلام کو مدبر کر دیا، ۱؎ یہ خبر رسول اللہ ﷺ کو پہنچی تو آپ نے اس شخص سے پوچھا: ”کیا تمہارے پاس اس غلام کے علاوہ بھی کوئی مال ہے؟“ اس نے کہا: نہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اسے مجھ سے کون خرید رہا ہے؟“ تو نعیم بن عبداللہ عدوی نے اسے آٹھ سو درہم میں خرید لیا، تو رسول اللہ ﷺ ان درہموں کو لے کر آئے اور انہیں اس کے حوالہ کر دیا، اور فرمایا: ”پہلے خود سے شروع کرو اسے اپنے اوپر صدقہ کرو اگر کچھ بچ رہے تو تمہاری بیوی کے لیے ہے، اور اگر تمہاری بیوی سے بھی بچ رہے تو تمہارے قرابت داروں کے لیے ہے، اور اگر تمہارے قرابت داروں سے بھی بچ رہے تو اس طرح اور اس طرح کرو، اور آپ اپنے سامنے اور اپنے دائیں اور بائیں اشارہ کر رہے تھے۔“ ۲؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی یہ کہہ دیا ہو کہ تم میرے مرنے کے بعد آزاد ہو۔ ۲؎ : مطلب یہ ہے کہ اپنے پاس پڑوس کے محتاجوں اور غریبوں کو دے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Jabir said: “A man from Banu ‘Udhrah declared that a slave of his would become free after he died. News of that reached the Messenger of Allah (ﷺ) and he said: ‘Do you have any property besides him?’ He said: ‘No.’ The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘Who will buy him from me?’ Nu’aim bin ‘Abdullah Al-’Adawi bought him for eight hundred Dirhams. The Messenger of Allah (ﷺ) brought it (the money) and gave it to him, then he said: ‘Start with yourself and if there is anything left, give it to your family. If there is anything left after your family (has been taken care of), then give it to your relatives. If there is anything left after your relatives (have been taken care of), then (give it) to such and such’ saying: ‘In front of you and to your right and to your left.” (Sahih)