Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Pride In Giving Charity)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2559.
حضرت عمرو بن شعیب کے پردادا سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”کھاؤ اور صدقہ کرو اور لباس پہنو مگر فضول خرچی اور تکبر نہ ہو۔“
تشریح:
(1) مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ اسے امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب اللباس سے پہلے معلق بیان کیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد اور متابعات کی بنا پر حسن قرر دیا ہے۔ بنا بریں دلائل کی رو سے اصولی طور پر یہ روایت حسن درجے کی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۲۳/ ۵۹، ۶۰، والموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: ۱۱/ ۲۹۴، ۲۹۵، ۳۱۲، ۳۱۳ وھدایة الرواة: ۴/ ۲۱۷، ۲۱۸) (2) فضول خرچی سے مراد ضرورت سے زائد خرچ کرنا یا حرام میں خرچ کرنا ہے۔ اور تکبر سے مراد یہ ہے کہ دوسروں کو حقیر سمجھے جو کھانے، پینے اور لباس وغیرہ میں اس سے کم درجے میں ہو۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2560
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2558
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2560
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت عمرو بن شعیب کے پردادا سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”کھاؤ اور صدقہ کرو اور لباس پہنو مگر فضول خرچی اور تکبر نہ ہو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ اسے امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب اللباس سے پہلے معلق بیان کیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد اور متابعات کی بنا پر حسن قرر دیا ہے۔ بنا بریں دلائل کی رو سے اصولی طور پر یہ روایت حسن درجے کی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۲۳/ ۵۹، ۶۰، والموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: ۱۱/ ۲۹۴، ۲۹۵، ۳۱۲، ۳۱۳ وھدایة الرواة: ۴/ ۲۱۷، ۲۱۸) (2) فضول خرچی سے مراد ضرورت سے زائد خرچ کرنا یا حرام میں خرچ کرنا ہے۔ اور تکبر سے مراد یہ ہے کہ دوسروں کو حقیر سمجھے جو کھانے، پینے اور لباس وغیرہ میں اس سے کم درجے میں ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کھاؤ، صدقہ کرو، اور پہنو، لیکن اسراف (فضول خرچی) اور غرور (گھمنڈ و تکبر) سے بچو۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from ‘Amr bin Shu'aib, from his father, that his grandfather said: “Eat, give charity and clothe yourselves, without being extravagant, and without showing off.” (Da’if)