Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: The Al-Mannan: One Who Reminds People Of What He Has Given Them)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2563.
حضرت ابو ذر ؓ سے مروی ہے، نبیﷺ نے فرمایا: ”تین شخص ایسے (بدنصیب) ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن انھیں (نظر رحمت سے) نہیں دیکھے گا۔ نہ ان سے (رضا مندی والا) کلام فرمائے گا اور نہ انھیں پاک فرمائے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔“ رسول اللہﷺ نے آیت کا یہ ٹکڑا قراء ت فرمایا تو حضرت ابوذر ؓ نے عرض کیا: وہ تو ناکام ہوئے اور خسارے میں پڑے۔ (وہ کون لوگ ہیں؟) رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”(وہ یہ ہیں:) اپنے تہبند کو ٹخنے سے نیچے لٹکانے والا، جھوٹی قسم کھا کر اپنا سامان بیچنے والا اور اپنے عطیے پر احسان جتلانے والا۔“
تشریح:
(1) ”نہ کلام فرمائے گا۔“ البتہ ڈانٹ ڈپٹ ہوگی لیکن عرفاً اسے کلام کرنا نہیں کہتے۔ یہ تو دشمنوں میں بھی ہوتا ہے۔ (2) ”نہ پاک فرمائے گا۔“ سزا یہی ہے مگر اللہ تعالیٰ معاف فرما دے تو کیا اعتراض؟ سزا کے بعد تو ہر مومن کو معافی ہو ہی جائے گی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2564
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2562
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2564
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت ابو ذر ؓ سے مروی ہے، نبیﷺ نے فرمایا: ”تین شخص ایسے (بدنصیب) ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن انھیں (نظر رحمت سے) نہیں دیکھے گا۔ نہ ان سے (رضا مندی والا) کلام فرمائے گا اور نہ انھیں پاک فرمائے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔“ رسول اللہﷺ نے آیت کا یہ ٹکڑا قراء ت فرمایا تو حضرت ابوذر ؓ نے عرض کیا: وہ تو ناکام ہوئے اور خسارے میں پڑے۔ (وہ کون لوگ ہیں؟) رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”(وہ یہ ہیں:) اپنے تہبند کو ٹخنے سے نیچے لٹکانے والا، جھوٹی قسم کھا کر اپنا سامان بیچنے والا اور اپنے عطیے پر احسان جتلانے والا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”نہ کلام فرمائے گا۔“ البتہ ڈانٹ ڈپٹ ہوگی لیکن عرفاً اسے کلام کرنا نہیں کہتے۔ یہ تو دشمنوں میں بھی ہوتا ہے۔ (2) ”نہ پاک فرمائے گا۔“ سزا یہی ہے مگر اللہ تعالیٰ معاف فرما دے تو کیا اعتراض؟ سزا کے بعد تو ہر مومن کو معافی ہو ہی جائے گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”تین شخص ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ بات کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا، نہ ان کو پاک کرے گا، اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا“، پھر رسول اللہ ﷺ نے یہی آیت پڑھی۔ تو ابوذر ؓ نے کہا: وہ لوگ نامراد ہوئے، گھاٹے میں رہے، آپ نے فرمایا: ”(وہ تین یہ ہیں) اپنا تہبند ٹخنے کے نیچے لٹکانے والا، جھوٹی قسمیں کھا کھا کر اپنے سامان کو رواج دینے والا، اپنے دیے ہوئے کا احسان جتانے والا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Dharr (RA) that the Prophet (ﷺ) said: “There are three to whom Allah will not speak on the Day of Resurrection, or look at them, or sanctify them, and theirs will be a painful torment.” The Messenger of Allah (ﷺ) repeated and Abu Dharr (RA) said: “May they be lost and doomed, may they be lost and doomed.” He said: “The one who lets his garment hang beneath his ankles, a vendor who tries to sell his product by means of false oaths, and the one who reminds people of what he has given them.” (Sahih)