Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: The Virtue Of Hajj Al-Mabrur)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2622.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”حج مبرور کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں۔ اور ایک عمرہ دوسرے عمرے تک کے درمیانی گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔“
تشریح:
(1) حج مبرور سے مراد وہ حج ہے جس میں شہوانی باتیں، فسق اور لڑائی جھگڑا نہ ہو جیسا کہ قرآن مجید میں اس کی طرف اشارہ ہے۔ بعض نے حج مبرور کے معنیٰ مقبول حج کے کیے ہیں مگر مقبول مبرور کا معنیٰ نہیں بلکہ لازم ہے، یعنی جو حج ان مفاسد سے پاک ہوگا، وہ لازماً قبول ہوگا۔ حج مبرور کی نشانی یہ بھی ہے کہ حج کرنے والا حج کے بعد پہلے سے بہترین جائے اور کبائر کا مرتکب نہ ہو۔ بعض نے حج مبرور سے مراد وہ حج لیا ہے جس میں ریا کاری نہ ہو۔ (2) ”جنت“ یعنی وہ اولین طور پر جنت میں جائے گا۔ گویا حج سے اس کے تمام پہلے گناہ معاف ہو جائیں گے۔ (3) کفارہ“ یعنی صغائر معاف ہو جائیں گے بشرطیکہ کبائر سے اجتناب کرے۔ بعض نے صغائر وکبائر دونوں مراد لیے ہیں کیونکہ صرف صغائر تو کبائر کے اجتناب سے بھی معاف ہو جاتے ہیں اور وضو سے بھی، نماز سے بھی، پھر حج کی کیا خصوصیت ہے؟ (4) حج کی فضیلت عمرے سے زیادہ ہے۔ (5) ایک سال میں کئی عمرے کیے جا سکتے ہیں لیکن حج سال میں ایک ہی دفعہ کیا جا سکتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2623
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2621
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2623
تمہید کتاب
حج ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے۔ ان ارکان کے چھوڑنے سے کفر واسلام میں امتیاز ختم ہو جاتا ہے۔ حج کے لغوی معنی قصد کرنا ہیں مگر شریعت اسلامیہ میں اس سے مراد چند معین ایام میں مخصوص طریقے اور اعمال کے ساتھ بیت اللہ کی زیارت کرنا ہے۔ حج کا مقصد بیت اللہ کی تعظیم ہے جو کہ مسلمانوں کا مرکز اور ان کی وحدت کا ضامن ہے۔ اس کی طرف تمام مسلمان قبلہ رخ ہو کر نماز پڑھتے ہیں۔ حج میں مسلمانوں کا عظیم اجتماع ہوتا ہے۔ جس کی نظیر پیش کرنے سے تمام ادیان ومذاہب قاصر ہیں۔ اس سے مسلمانوں میں باہمی ربط وتعاون، آپس میں تعارف و الفت اور محبت و مودت کے جذبات ترقی پاتے ہیں۔ ہر علاقہ وملک کے لوگ، ہر رنگ ونسل سے تعلق رکھنے والے جن کی زبانیں مختلف ہوتی ہیں مگر دلی جذبات ایک سے ہوتے ہیں، ان کی بود وباش مختلف، مگر ان کی زبان پر ایک ہی ترانہ ہوتا ہے۔ حج کے ارکان کی ادائیگی کے وقت ان کا لباس بھی ایک ہی ہوتا ہے۔ نہ دنگا فساد، نہ لڑائی جھگڑا، نہ گالم گلوچ۔ حج زندگی میں ایک دفعہ فرض ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرضیت حج کے بعد ایک ہی حج ادا فرمایا تھا۔ حج کی ادائیگی میں حضرت ابراہیمؑ، ان کی زوجہ محترمہ حضرت ہاجرہ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل ؑکی یاد تازہ ہوتی ہے جو سب سے پہلے اس عبادت کو ادا کرنے والے تھے۔ بیت اللہ بھی انھی دو عظیم شخصیات کا تعمیر کردہ ہے۔ حج کا اعلان بھی حضرت ابراہیم ؑ کی زبانی ہوا۔ حج خلوص، للہیت، قربانی، صبر اور مسلمانوں کی شان وشوکت کا عظيم مظہر ہے جس کی مثال ناپید ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”حج مبرور کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں۔ اور ایک عمرہ دوسرے عمرے تک کے درمیانی گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) حج مبرور سے مراد وہ حج ہے جس میں شہوانی باتیں، فسق اور لڑائی جھگڑا نہ ہو جیسا کہ قرآن مجید میں اس کی طرف اشارہ ہے۔ بعض نے حج مبرور کے معنیٰ مقبول حج کے کیے ہیں مگر مقبول مبرور کا معنیٰ نہیں بلکہ لازم ہے، یعنی جو حج ان مفاسد سے پاک ہوگا، وہ لازماً قبول ہوگا۔ حج مبرور کی نشانی یہ بھی ہے کہ حج کرنے والا حج کے بعد پہلے سے بہترین جائے اور کبائر کا مرتکب نہ ہو۔ بعض نے حج مبرور سے مراد وہ حج لیا ہے جس میں ریا کاری نہ ہو۔ (2) ”جنت“ یعنی وہ اولین طور پر جنت میں جائے گا۔ گویا حج سے اس کے تمام پہلے گناہ معاف ہو جائیں گے۔ (3) کفارہ“ یعنی صغائر معاف ہو جائیں گے بشرطیکہ کبائر سے اجتناب کرے۔ بعض نے صغائر وکبائر دونوں مراد لیے ہیں کیونکہ صرف صغائر تو کبائر کے اجتناب سے بھی معاف ہو جاتے ہیں اور وضو سے بھی، نماز سے بھی، پھر حج کی کیا خصوصیت ہے؟ (4) حج کی فضیلت عمرے سے زیادہ ہے۔ (5) ایک سال میں کئی عمرے کیے جا سکتے ہیں لیکن حج سال میں ایک ہی دفعہ کیا جا سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مبرور و مقبول حج کا بدلہ جنت کے سوا اور کچھ نہیں اور ایک عمرہ دوسرے عمرہ کے درمیان تک کے گناہوں کا کفارہ ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Hurairah (RA) said: “The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘Hajj Al-Mabrur brings no reward other than Paradise, and from one ‘Umrah to another is an expiation for what came in between.” (Sahih)