Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: Hajj of A Man On Behalf Of A Woman)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2643.
حضرت ابن عباس ؓ نے خبر دی کہ حجۃ الوداع میں خثعم قبیلے کی ایک عورت نے رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ پوچھا، حضرت فضل بن عباس ؓ آپ کے پیچھے سواری پر بیٹھے تھے۔ وہ کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں پر فریضہ حج نے میرے والد کو بہت بڑھاپے کی حالت میں پایا ہے۔ وہ سواری پر بیٹھ بھی نہیں سکتے۔ اگر میں ان کی طرف سے حج کروں تو کیا ان کی طرف سے کفایت ہو جائے گا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں۔“ فضل بن عباس ؓ اس عورت کو دیکھنے لگے (کیونکہ) وہ خوش شکل تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے فضل کا چہرہ پکڑ کر دوسری طرف پھیر دیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2644
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2642
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2644
تمہید کتاب
حج ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے۔ ان ارکان کے چھوڑنے سے کفر واسلام میں امتیاز ختم ہو جاتا ہے۔ حج کے لغوی معنی قصد کرنا ہیں مگر شریعت اسلامیہ میں اس سے مراد چند معین ایام میں مخصوص طریقے اور اعمال کے ساتھ بیت اللہ کی زیارت کرنا ہے۔ حج کا مقصد بیت اللہ کی تعظیم ہے جو کہ مسلمانوں کا مرکز اور ان کی وحدت کا ضامن ہے۔ اس کی طرف تمام مسلمان قبلہ رخ ہو کر نماز پڑھتے ہیں۔ حج میں مسلمانوں کا عظیم اجتماع ہوتا ہے۔ جس کی نظیر پیش کرنے سے تمام ادیان ومذاہب قاصر ہیں۔ اس سے مسلمانوں میں باہمی ربط وتعاون، آپس میں تعارف و الفت اور محبت و مودت کے جذبات ترقی پاتے ہیں۔ ہر علاقہ وملک کے لوگ، ہر رنگ ونسل سے تعلق رکھنے والے جن کی زبانیں مختلف ہوتی ہیں مگر دلی جذبات ایک سے ہوتے ہیں، ان کی بود وباش مختلف، مگر ان کی زبان پر ایک ہی ترانہ ہوتا ہے۔ حج کے ارکان کی ادائیگی کے وقت ان کا لباس بھی ایک ہی ہوتا ہے۔ نہ دنگا فساد، نہ لڑائی جھگڑا، نہ گالم گلوچ۔ حج زندگی میں ایک دفعہ فرض ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرضیت حج کے بعد ایک ہی حج ادا فرمایا تھا۔ حج کی ادائیگی میں حضرت ابراہیمؑ، ان کی زوجہ محترمہ حضرت ہاجرہ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل ؑکی یاد تازہ ہوتی ہے جو سب سے پہلے اس عبادت کو ادا کرنے والے تھے۔ بیت اللہ بھی انھی دو عظیم شخصیات کا تعمیر کردہ ہے۔ حج کا اعلان بھی حضرت ابراہیم ؑ کی زبانی ہوا۔ حج خلوص، للہیت، قربانی، صبر اور مسلمانوں کی شان وشوکت کا عظيم مظہر ہے جس کی مثال ناپید ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ نے خبر دی کہ حجۃ الوداع میں خثعم قبیلے کی ایک عورت نے رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ پوچھا، حضرت فضل بن عباس ؓ آپ کے پیچھے سواری پر بیٹھے تھے۔ وہ کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں پر فریضہ حج نے میرے والد کو بہت بڑھاپے کی حالت میں پایا ہے۔ وہ سواری پر بیٹھ بھی نہیں سکتے۔ اگر میں ان کی طرف سے حج کروں تو کیا ان کی طرف سے کفایت ہو جائے گا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں۔“ فضل بن عباس ؓ اس عورت کو دیکھنے لگے (کیونکہ) وہ خوش شکل تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے فضل کا چہرہ پکڑ کر دوسری طرف پھیر دیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
فضل بن عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سواری پر سوار تھے تو آپ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری ماں بہت بوڑھی ہو چکی ہیں، اگر میں انہیں سواری پر چڑھا دوں تو وہ بیٹھی نہیں رہ سکتیں، اور اگر میں انہیں (سواری پر بٹھا کر) باندھ دوں تو ڈرتا ہوں کہ کہیں ان کی جان نہ لے بیٹھوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کیا خیال ہے اگر تمہاری ماں پر قرض ہوتا تو تم اسے ادا کرتے؟“ اس نے کہا: جی ہاں (میں ادا کرتا) آپ نے فرمایا: ”تو تم اپنی ماں کی جانب سے حج کرو۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Al-Fadal bin ‘Abbas (RA) that he was riding behind the Messenger of Allah (ﷺ) and a man came and said: “Messenger of Allah (ﷺ)! My mother is an old woman and she cannot sit firmly in the saddle. If I tie her I fear that I may kill her.” The Messenger of Allah (ﷺ) said: “Don’t you think that if your mother owed a debt you would pay it off?” He said: “Yes.” He said: “Then perform Hajj on behalf of your mother.”(Sahih).