Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: Ghusl of the Muhrim)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2665.
حضرت عبداللہ بن حنین سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور حضرت مسور بن مخرمہ ؓ کا ابواء کے مقام پر اختلاف ہوگیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: ”اپنا سر دھو سکتا ہے۔ اور حضرت مسور ؓ نے فرمایا: وہ سر نہیں دھو سکتا۔ مجھے حضرت ابن عباس ؓ نے حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے پاس بھیجا کہ ان سے اس بارے میں پوچھوں۔ (میں آیا) تو میں نے انھیں کنویں کی دو لکڑیوں کے درمیان غسل کرتے پایا۔ انھوں نے ایک کپڑے کے ساتھ پردہ کیا ہوا تھا۔ میں نے انھیں سلام کیا اور کہا: مجھے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ سے پوچھوں کہ رسول اللہ ﷺ احرام کی حالت میں اپنا سر کیسے دھوتے تھے؟ حضرت ابو ایوب نے کپڑے پر ہاتھ رکھ کر اسے نیچے کیا حتیٰ کہ ان کا سر نظر آنے لگا، پھر اس شخص سے کہنے لگے: جو ان کے سر پر پانی بہا رہا تھا: پانی بہاؤ، پھر انھوں نے اپنے سر کو اپنے دونوں ہاتھ سے حرکت دی، اپنے دونوں ہاتھوں کو آگے لائے اور پیچھے لے گئے۔ اور فرمایا: میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو ایسے کرتے دیکھا ہے۔
تشریح:
(1) محرم احتلام کے علاوہ بھی حسب منشا غسل کر سکتا ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے، نیز سر کو اچھی طرح دھویا اور ملا بھی جا سکتا ہے۔ بعض لوگ بال ٹوٹنے یا اترنے کے خدشے سے غسل سے روکتے ہیں اور اگر نہاتے ہوئے کوئی بال ٹوٹ جائے تو دم لازم کرتے ہیں۔ یہ محض احتیاط ہے جو دلیل سے عاری ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کی حالت میں سینگی بھی لگوائی ہے، اس کی وجہ سے یقینا بال بھی کاٹنے پڑتے ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس موقع پر دم دینا ثابت نہیں، اگر دیا ہوتا تو دیگر مناسک کی طرح جم غفیر میں سے کوئی نہ کوئی اسے ضرور نقل کرتا۔ بنا بریں عدم نقل عدم ثبوت کی دلیل ہے، تاہم اگر بلا وجہ قصداً کچھ بال کاٹے یا سارا سر ہی مونڈھ لے تو پھر دم دینا حدیث سے ثابت ہے۔ (2) ”سلام کیا۔“ وہ ننگے نہیں نہا رہے تھے بلکہ تہبند باندھا ہوا تھا۔ پردے والا کپڑا اس کے علاوہ تھا۔ (3) اختلاف کے وقت نص کی طرف رجوع کرنا چاہیے، اپنا قیاس اور اجتہاد چھوڑ دینا چاہیے۔ (4) خبر واحد حجت ہے، صحابہ کرامؓ میں اسے قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا عام تھا۔
حضرت عبداللہ بن حنین سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور حضرت مسور بن مخرمہ ؓ کا ابواء کے مقام پر اختلاف ہوگیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: ”اپنا سر دھو سکتا ہے۔ اور حضرت مسور ؓ نے فرمایا: وہ سر نہیں دھو سکتا۔ مجھے حضرت ابن عباس ؓ نے حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے پاس بھیجا کہ ان سے اس بارے میں پوچھوں۔ (میں آیا) تو میں نے انھیں کنویں کی دو لکڑیوں کے درمیان غسل کرتے پایا۔ انھوں نے ایک کپڑے کے ساتھ پردہ کیا ہوا تھا۔ میں نے انھیں سلام کیا اور کہا: مجھے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ سے پوچھوں کہ رسول اللہ ﷺ احرام کی حالت میں اپنا سر کیسے دھوتے تھے؟ حضرت ابو ایوب نے کپڑے پر ہاتھ رکھ کر اسے نیچے کیا حتیٰ کہ ان کا سر نظر آنے لگا، پھر اس شخص سے کہنے لگے: جو ان کے سر پر پانی بہا رہا تھا: پانی بہاؤ، پھر انھوں نے اپنے سر کو اپنے دونوں ہاتھ سے حرکت دی، اپنے دونوں ہاتھوں کو آگے لائے اور پیچھے لے گئے۔ اور فرمایا: میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو ایسے کرتے دیکھا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) محرم احتلام کے علاوہ بھی حسب منشا غسل کر سکتا ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے، نیز سر کو اچھی طرح دھویا اور ملا بھی جا سکتا ہے۔ بعض لوگ بال ٹوٹنے یا اترنے کے خدشے سے غسل سے روکتے ہیں اور اگر نہاتے ہوئے کوئی بال ٹوٹ جائے تو دم لازم کرتے ہیں۔ یہ محض احتیاط ہے جو دلیل سے عاری ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کی حالت میں سینگی بھی لگوائی ہے، اس کی وجہ سے یقینا بال بھی کاٹنے پڑتے ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس موقع پر دم دینا ثابت نہیں، اگر دیا ہوتا تو دیگر مناسک کی طرح جم غفیر میں سے کوئی نہ کوئی اسے ضرور نقل کرتا۔ بنا بریں عدم نقل عدم ثبوت کی دلیل ہے، تاہم اگر بلا وجہ قصداً کچھ بال کاٹے یا سارا سر ہی مونڈھ لے تو پھر دم دینا حدیث سے ثابت ہے۔ (2) ”سلام کیا۔“ وہ ننگے نہیں نہا رہے تھے بلکہ تہبند باندھا ہوا تھا۔ پردے والا کپڑا اس کے علاوہ تھا۔ (3) اختلاف کے وقت نص کی طرف رجوع کرنا چاہیے، اپنا قیاس اور اجتہاد چھوڑ دینا چاہیے۔ (4) خبر واحد حجت ہے، صحابہ کرامؓ میں اسے قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا عام تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس اور مسور بن مخرمہ رضی الله عنہم سے روایت ہے کہ ان دونوں کے درمیان مقام ابواء میں (محرم کے سر دھونے اور نہ دھونے کے بارے میں) اختلاف ہو گیا۔ ابن عباس ؓ نے کہا: محرم اپنا سر دھوئے گا اور مسور نے کہا: نہیں دھوئے گا۔ تو ابن عباس ؓ نے مجھے ابوایوب انصاری ؓ کے پاس بھیجا کہ میں ان سے اس بارے میں سوال کروں، چنانچہ میں گیا تو وہ مجھے کنویں کی دونوں لکڑیوں کے درمیان غسل کرتے ہوئے ملے اور وہ کپڑے سے پردہ کئے ہوئے تھے، میں نے انہیں سلام کیا اور کہا: مجھے عبداللہ بن عباس ؓ نے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ میں آپ سے سوال کروں کہ رسول اللہ ﷺ حالت احرام میں اپنا سر کس طرح دھوتے تھے۔۱؎ (یہ سن کر) ابوایوب ؓ نے اپنا ہاتھ کپڑے پر رکھا، اور اسے جھکایا یہاں تک کہ ان کا سر دکھائی دینے لگا، پھر ایک شخص سے جو پانی ڈالتا تھا کہا: سر پر پانی ڈالو، پھر انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کو حرکت دی، (صورت یہ رہی کہ) کہ دونوں ہاتھ کو آگے لائے اور پیچھے لے گئے، اور کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یہاں ایک اشکال یہ ہے کہ دونوں میں اختلاف غسل کرنے یا نہ کرنے میں تھا نہ کہ کیفیت کے بارے میں پھر انہوں نے ابوایوب رضی الله عنہ سے جا کر غسل کی کیفیت کے بارے کیوں سوال کیا؟ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ ان دونوں نے انہیں دونوں باتیں پوچھنے کے لیے بھیجا تھا لیکن وہاں پہنچ کر جب انہوں نے خود انہی کو حالت احرام میں غسل کرتے دیکھا تو اس سے انہوں نے اس کے جواز کو خود بخود جان لیا اب بچا مسئلہ صرف کیفیت کا تو اس بارے میں انہوں نے پوچھ لیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from ‘Abdullah bin ‘Abbas and Al Miswar bin Makhramah that they had a difference of opinion in Al Abwa’. Ibn ‘Abbas said: “The Muhrim (pilgrim in Ihram) may wash his head.” Al-Miswar said: “He should not wash his head.” Ibn ‘Abbas sent me (the narrator) to Abu Ayyub Al-Ansari to ask him about that. I found him performing Ghusl in front of the well, screened with a cloth. I greeted him with Salam and said: “Abdullah bin ‘Abbas has sent me to you to ask you how the Messenger of Allah (ﷺ) used to wash his head when he was in Ihram.” Abu Ayyub put his hand on the cloth and lowered it, until his head appeared, then he told someone to pour water on his head. Then he rubbed his head with his hands, back and forth, and said: “This is what I saw the Messenger of Allah (ﷺ) do.” (Sahih)