Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: The Prohibition of Womenm Covering Therir Faces in Ihram)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2673.
حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی کھڑا ہو کر کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! احرام کی حالت میں آپ ہمیں کن کپڑوں کے پہننے کا حکم دیتے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قمیص، شلوار، پگڑی، برانڈی (اوور کوٹ اور ٹوپی دار کرتا) اور موزے نہ پہنو مگر یہ کہ کسی کے پاس جوتے نہ ہوں تو وہ موزے ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ کر پہن سکتا ہے۔ اور کوئی ایسا کپڑا نہ پہنو جس کو زعفران یا ورس لگی ہو، نیز محرم عورت نہ نقاب باندھے اور نہ دستانے پہنے۔“
تشریح:
(1) ”نقاب نہ باندھے“ اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت اپنا چہرہ ننگا رکھے، بلکہ یہ ایک مخصوص قسم کا نقاب تھا جو اس زمانے میں رائج تھا، اس سے فوری طور پر چہرے کا پردہ کرنا مشکل ہوتا تھا، اس لیے مخصوص نقاب سے روک دیا گیا تاکہ مردوں کے سامنے آتے ہی فوراً پردہ کرنا آسان رہے، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ مرد سامنے آتے تو ہم فوراً چہرہ ڈھانپ لیتیں۔ اب اس نقاب کا رواج بھی ختم ہوگیا ہے۔ علاوہ ازیں اب مردوں کا ہجوم ہر وقت اور ہر جگہ رہتا ہے، اس لیے اب حجاب کا اہتمام ہر وقت ہی کرنا چاہیے، سوائے ان جگہوں کے جہاں مرد نہ ہوں۔ بعض لوگ عورت کے لیے چہرہ ننگا رکھنے پر سنن دارقطنی کی اس روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ ”عورت کا احرام اس کے چہرے میں اور مرد کا احرام اس کے سر میں ہے۔“ اسے سنن دارقطنی میں مرفوعاً بیان کیا گیا ہے لیکن اس کا مرفوع ہونا ثابت نہیں ہے۔ یہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول، یعنی موقوف روایت ہے۔ دیکھیے: (سنن الدارقطني: ۲/ ۵۵۴۔ بتحقیق الشیخ عادل والشیخ علي محمد، دارالمعرفة، بیروت) اس لیے اس سے استدلال صحیح نہیں ہے۔ بشرطِ صحت اس موقوف روایت کا بھی وہی مفہوم لیا جائے گا جس کی وضاحت ہم نے کی ہے۔ (2) ”دستانے نہ پہنے“ مقصد یہ ہے کہ وہ ہاتھ ننگے رکھے تاکہ دوران حج و عمرہ میں کوئی تنگی نہ ہو۔ معلوم ہوا اس دور میں خواتین پردے کے لیے دستانے بھی استعمال کرتی تھیں۔ مشہور تو یہی ہے کہ دستانے ہاتھوں کو سردی، گرمی یا پانی سے بچانے کے لیے ہوتے ہیں مگر بعض اہل لغت نے اس سے زیور بھی مراد لیا ہے جس کے ساتھ ہاتھ چھپ جاتے ہیں۔ خیر! احرام میں ہاتھ ننگے رہنے چاہئیں۔
حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی کھڑا ہو کر کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! احرام کی حالت میں آپ ہمیں کن کپڑوں کے پہننے کا حکم دیتے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قمیص، شلوار، پگڑی، برانڈی (اوور کوٹ اور ٹوپی دار کرتا) اور موزے نہ پہنو مگر یہ کہ کسی کے پاس جوتے نہ ہوں تو وہ موزے ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ کر پہن سکتا ہے۔ اور کوئی ایسا کپڑا نہ پہنو جس کو زعفران یا ورس لگی ہو، نیز محرم عورت نہ نقاب باندھے اور نہ دستانے پہنے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”نقاب نہ باندھے“ اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت اپنا چہرہ ننگا رکھے، بلکہ یہ ایک مخصوص قسم کا نقاب تھا جو اس زمانے میں رائج تھا، اس سے فوری طور پر چہرے کا پردہ کرنا مشکل ہوتا تھا، اس لیے مخصوص نقاب سے روک دیا گیا تاکہ مردوں کے سامنے آتے ہی فوراً پردہ کرنا آسان رہے، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ مرد سامنے آتے تو ہم فوراً چہرہ ڈھانپ لیتیں۔ اب اس نقاب کا رواج بھی ختم ہوگیا ہے۔ علاوہ ازیں اب مردوں کا ہجوم ہر وقت اور ہر جگہ رہتا ہے، اس لیے اب حجاب کا اہتمام ہر وقت ہی کرنا چاہیے، سوائے ان جگہوں کے جہاں مرد نہ ہوں۔ بعض لوگ عورت کے لیے چہرہ ننگا رکھنے پر سنن دارقطنی کی اس روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ ”عورت کا احرام اس کے چہرے میں اور مرد کا احرام اس کے سر میں ہے۔“ اسے سنن دارقطنی میں مرفوعاً بیان کیا گیا ہے لیکن اس کا مرفوع ہونا ثابت نہیں ہے۔ یہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول، یعنی موقوف روایت ہے۔ دیکھیے: (سنن الدارقطني: ۲/ ۵۵۴۔ بتحقیق الشیخ عادل والشیخ علي محمد، دارالمعرفة، بیروت) اس لیے اس سے استدلال صحیح نہیں ہے۔ بشرطِ صحت اس موقوف روایت کا بھی وہی مفہوم لیا جائے گا جس کی وضاحت ہم نے کی ہے۔ (2) ”دستانے نہ پہنے“ مقصد یہ ہے کہ وہ ہاتھ ننگے رکھے تاکہ دوران حج و عمرہ میں کوئی تنگی نہ ہو۔ معلوم ہوا اس دور میں خواتین پردے کے لیے دستانے بھی استعمال کرتی تھیں۔ مشہور تو یہی ہے کہ دستانے ہاتھوں کو سردی، گرمی یا پانی سے بچانے کے لیے ہوتے ہیں مگر بعض اہل لغت نے اس سے زیور بھی مراد لیا ہے جس کے ساتھ ہاتھ چھپ جاتے ہیں۔ خیر! احرام میں ہاتھ ننگے رہنے چاہئیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ ہمیں احرام میں کس طرح کے کپڑے پہننے کا حکم دیتے ہیں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”نہ قمیص پہنو، نہ پائجامے، نہ عمامہ، نہ ٹوپیاں سوائے اس کے کہ کسی کے پاس جوتے موجود نہ ہوں تو وہ ایسے موزے پہنے جو ٹخنوں سے نیچے ہوں، اور کوئی ایسا کپڑا نہ پہنو جس میں زعفران یا ورس لگے ہوں اور محرم عورت نہ نقاب پہنے اور نہ ہی دستانے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn ‘Umar said: “A man stood up and said: ‘Messenger of Allah (ﷺ)! What garments do you command us to wear in Ihram?’ The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘Do not wear shirts or pants, or ‘Imamahs, or burnouses, or Khuffs - except if someone does not have sandals, in which case let him wear Khuffs that come below the ankles. And do not wear any garment that has been touched by (dyed with) saffron or wars. And women should not cover their faces when in Ihram, or wear gloves.” (Sahih)