باب: احرام باندھتے وقت بالوں کو گوند(وغیرہ)سے چپکانا
)
Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: At-Talbid (Having one's Hair Matted) for Ihram)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2682.
ام المومنین حضرت حفصہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے حلال ہوگئے ہیں مگر آپ عمرہ کر کے حلال نہیں ہوئے؟ آپ نے فرمایا: ”میں نے اپنے سر کے بالوں کو گوند سے چپکایا ہے اور قربانی کے جانور کو قلادہ (ہار) پہنا دیا ہے، اس لیے میں حلال نہیں ہو سکتا حتیٰ کہ حج سے حلال ہو جاؤں۔“
تشریح:
(1) بال بڑے ہوں اور احرام لمبے عرصے کے لیے ہو تو بالوں کو مٹی اور جوؤں سے، نیز زیادہ پراگندگی سے بچانے کے لیے کچھ گوند وغیرہ لگا لینا جس سے بالوں کو تہہ جم جائے تلبید کہلاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چونکہ عمرے اور حج کا اکٹھا احرام باندھا تھا جو دو ہفتے تک جاری رہنا تھا، اس لیے آپ نے تلبید فرمائی۔ اکثر صحابہ کا احرام صرف عمرے کا تھا، لہٰذا انھیں تلبید کی ضرورت نہ تھی۔ (2) تلبید، واجب ہے نہ منع، محرم کی مرضی پر موقوف ہے۔ (3) سوال کے جواب میں آپ نے تلبید اور قربانی کا ذکر فرمایا۔ تلبید تو نشانی تھی احرام کے طویل ہونے کی اور قربانی کا جانور اگر ساتھ ہو تو محرم حلال نہیں ہو سکتا، خواہ عمرے کا احرام ہی ہو جب تک وہ جانور ذبح نہیں ہو جاتا۔ قلادہ انھی جانوروں کو ڈالا جاتا تھا جو ساتھ لے جائے جاتے تھے۔ موقع پر خریدے گئے جانوروں کو قلادے کی ضرورت نہیں تھی۔ (4) حج سے حلال ہونے سے مراد قربانی کا ذبح کرنا ہے۔ اس سے احرام ختم ہو جاتا ہے، اگرچہ حج کے بعض افعال بعد میں بھی ہوتے رہتے ہیں۔ (5) یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج قران کیا ہے۔
ام المومنین حضرت حفصہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے حلال ہوگئے ہیں مگر آپ عمرہ کر کے حلال نہیں ہوئے؟ آپ نے فرمایا: ”میں نے اپنے سر کے بالوں کو گوند سے چپکایا ہے اور قربانی کے جانور کو قلادہ (ہار) پہنا دیا ہے، اس لیے میں حلال نہیں ہو سکتا حتیٰ کہ حج سے حلال ہو جاؤں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) بال بڑے ہوں اور احرام لمبے عرصے کے لیے ہو تو بالوں کو مٹی اور جوؤں سے، نیز زیادہ پراگندگی سے بچانے کے لیے کچھ گوند وغیرہ لگا لینا جس سے بالوں کو تہہ جم جائے تلبید کہلاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چونکہ عمرے اور حج کا اکٹھا احرام باندھا تھا جو دو ہفتے تک جاری رہنا تھا، اس لیے آپ نے تلبید فرمائی۔ اکثر صحابہ کا احرام صرف عمرے کا تھا، لہٰذا انھیں تلبید کی ضرورت نہ تھی۔ (2) تلبید، واجب ہے نہ منع، محرم کی مرضی پر موقوف ہے۔ (3) سوال کے جواب میں آپ نے تلبید اور قربانی کا ذکر فرمایا۔ تلبید تو نشانی تھی احرام کے طویل ہونے کی اور قربانی کا جانور اگر ساتھ ہو تو محرم حلال نہیں ہو سکتا، خواہ عمرے کا احرام ہی ہو جب تک وہ جانور ذبح نہیں ہو جاتا۔ قلادہ انھی جانوروں کو ڈالا جاتا تھا جو ساتھ لے جائے جاتے تھے۔ موقع پر خریدے گئے جانوروں کو قلادے کی ضرورت نہیں تھی۔ (4) حج سے حلال ہونے سے مراد قربانی کا ذبح کرنا ہے۔ اس سے احرام ختم ہو جاتا ہے، اگرچہ حج کے بعض افعال بعد میں بھی ہوتے رہتے ہیں۔ (5) یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج قران کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین حفصہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا بات ہے لوگوں نے احرام کھول دیا ہے اور آپ نے اپنے عمرہ کا احرام نہیں کھولا؟ آپ نے فرمایا: ”میں نے اپنے سر کی تلبید،۱؎ اور اپنے ہدی کی تقلید ۲؎ کر رکھی ہے، تو میں احرام نہیں کھولوں گا جب تک کہ حج سے فارغ نہ ہو جاؤں۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : تلبید: بالوں کو گوند وغیرہ سے جما لینے کو کہتے ہیں تاکہ وہ بکھریں نہیں اور گرد و غبار سے محفوظ رہیں۔ ۲؎ : قربانی کے جانور کے گلے میں قلادہ یا اور کوئی چیز لٹکانے کو تقلید کہتے ہیں تاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ یہ ہدی کا جانور ہے اس کا فائدہ یہ تھا کہ عرب ایسے جانور کو لوٹتے نہیں تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from ‘Abdullah bin ‘Umar that his sister, Hafsah, said: “I said to the Prophet (ﷺ) ‘Messenger of Allah (ﷺ)! Why is it that the people have exited Ihram and you have not exited Ihram following your ‘Umrah?’ He said: ‘I have matted my hair and garlanded my Hadi (sacrificial animal), so I will not exit Ihram until I exit Ihram after Hajj.” (Sahih).