باب: جس شخص نے شرط نہیں لگائی ‘وہ حج سے روک دیا جائے تو کیا کرے؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: What Is Done By The One Who Was Prevented During Hajj Without Having Stipulated A Condition)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2769.
حضرت سالم بیان کرتے ہیں کہ (والد محترم) حضرت ابن عمر ؓ احرام حج میں شرط لگانے کا انکار فرماتے تھے اور کہتے تھے: کیا تمھیں رسول اللہﷺ کی سنت کافی نہیں؟ اگر تم میں سے کوئی شخص حج سے روک دیا جائے تو وہ بیت اللہ کا طواف کرے اور صفا مروہ کے درمیان سعی کرے، پھر وہ ہر چیز سے (جو احرام میں ممنوع تھی) حلال ہو جائے حتیٰ کہ آئندہ سال حج کرے اور جانور بھی ذبح کرے۔ اور اگر جانور نہ پائے تو روزے رکھے۔
تشریح:
(1) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ حضرت ضباعہؓ کی حدیث سے واقف نہ ہوں گے ورنہ جس نبی اکرمﷺ کی سنت وہ بتلا رہے ہیں اسی نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے: ”شرط لگا۔“ جس طرح نبیﷺ کی سنت کافی ہے، اسی طرح نبی اکرمﷺ کا فرمان بھی چون وچرا کی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ اور شرط والی یہ حدیث بالکل صحیح ہے۔ صحیح مسلم اور سنن اربعہ میں مذکور ہے۔ اس کی متابعات بھی ہیں۔ جلیل القدر صحابہ کرام حضرت عمر، علی اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم اسی کے قائل ہیں، لہٰذا شرط لگانا بلا شبہ صحیح ہے۔ (2) ”بیت اللہ کا طواف کرے“ بشرطیکہ وہ وہاں تک پہنچ سکے، حضرت ضباعہ والی روایت میں تو عجز کی صورت ہے، ظاہر ہے ایسی صورت میں تو جہاں عجز طاری ہو وہیں حلال ہونا (احرام کھولنا) پڑے گا، البتہ اگر وہ فرض حج کا احرام تھا تو آئندہ سال دوبارہ حج کرنا ہوگا، اگر وہ طاقت پائے ورنہ اللہ تعالیٰ عذر قبول کرنے والا ہے۔ رسول اللہﷺ عمرہ حدیبیہ میں راستے ہی میں حلال ہوگئے تھے۔ اور کہیں ذکر نہیں کہ آپ نے ان صحابہ کو قضا کا حکم دیا ہو۔
حضرت سالم بیان کرتے ہیں کہ (والد محترم) حضرت ابن عمر ؓ احرام حج میں شرط لگانے کا انکار فرماتے تھے اور کہتے تھے: کیا تمھیں رسول اللہﷺ کی سنت کافی نہیں؟ اگر تم میں سے کوئی شخص حج سے روک دیا جائے تو وہ بیت اللہ کا طواف کرے اور صفا مروہ کے درمیان سعی کرے، پھر وہ ہر چیز سے (جو احرام میں ممنوع تھی) حلال ہو جائے حتیٰ کہ آئندہ سال حج کرے اور جانور بھی ذبح کرے۔ اور اگر جانور نہ پائے تو روزے رکھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ حضرت ضباعہؓ کی حدیث سے واقف نہ ہوں گے ورنہ جس نبی اکرمﷺ کی سنت وہ بتلا رہے ہیں اسی نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے: ”شرط لگا۔“ جس طرح نبیﷺ کی سنت کافی ہے، اسی طرح نبی اکرمﷺ کا فرمان بھی چون وچرا کی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ اور شرط والی یہ حدیث بالکل صحیح ہے۔ صحیح مسلم اور سنن اربعہ میں مذکور ہے۔ اس کی متابعات بھی ہیں۔ جلیل القدر صحابہ کرام حضرت عمر، علی اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم اسی کے قائل ہیں، لہٰذا شرط لگانا بلا شبہ صحیح ہے۔ (2) ”بیت اللہ کا طواف کرے“ بشرطیکہ وہ وہاں تک پہنچ سکے، حضرت ضباعہ والی روایت میں تو عجز کی صورت ہے، ظاہر ہے ایسی صورت میں تو جہاں عجز طاری ہو وہیں حلال ہونا (احرام کھولنا) پڑے گا، البتہ اگر وہ فرض حج کا احرام تھا تو آئندہ سال دوبارہ حج کرنا ہوگا، اگر وہ طاقت پائے ورنہ اللہ تعالیٰ عذر قبول کرنے والا ہے۔ رسول اللہﷺ عمرہ حدیبیہ میں راستے ہی میں حلال ہوگئے تھے۔ اور کہیں ذکر نہیں کہ آپ نے ان صحابہ کو قضا کا حکم دیا ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سالم بن عبداللہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر ؓ حج میں شرط لگانا پسند نہیں کرتے تھے، اور کہتے تھے: کیا تمہیں رسول اللہ ﷺ کی یہ سنت کافی نہیں؟ اگر تم میں سے کوئی حج سے روک دیا گیا ہو تو (اگر ممکن ہو تو) کعبے کا طواف، اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کر لے، پھر ہر چیز سے حلال ہو جائے، یہاں تک کہ آنے والے سال میں حج کرے اور ہدی دے، اور اگر ہدی میسر نہ ہو تو روزہ رکھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Salim said: “Ibn ‘Umar used to denounce stipulating conditions in Hajj, and said: ‘Is not the Sunnah of the Messenger of Allah (ﷺ) sufficient for you? If one of you is prevented from performing (finishing) Hajj let him circumambulate the House and (perform Sa’i) between As-Safa and Al-Marwah, then exit Ihram completely until he performs Hajj the following year. And let him offer a Hadi or fast if he cannot find a Hadi. (Sahih)