باب: جس شخص نے شرط نہیں لگائی ‘وہ حج سے روک دیا جائے تو کیا کرے؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: What Is Done By The One Who Was Prevented During Hajj Without Having Stipulated A Condition)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2770.
حضرت سالم اپنے والد (ابن عمر) کے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ وہ حج کے احرام میں شرط لگانے کا انکار کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے: کیا تمھیں تمہارے نبیﷺ کی سنتی کافی نہیں؟ کہ آپ نے شرط نہیں لگائی۔ اگر تم میں سے کسی کو کوئی رکاوٹ پیش آجائے تو (جب موقع ملے) بیت اللہ آئے، اس کا طواف کرے، صفا مروہ کے درمیان سعی کرے، پھر سر منڈوائے یا بال کٹوا لے، پھر حلال ہو جائے اور اس پر آئندہ سال حج ہوگا۔
تشریح:
”آپ نے شرط نہیں لگائی“ شاید ان کا اشارہ عمرۂ حدیبیہ کی طرف ہے کہ وہاں دشمن کی طرف سے رکاوٹ کا خطرہ تھا مگر آپ نے شرط نہیں لگائی جبکہ حضرت ضباعہؓ والی حدیث بعد کی ہے جس میں آپ نے شرط لگانے کا حکم دیا، دونوں پر عمل چاہیے جو شرط لگائے وہ شرط والی روایت پر عمل کرے اور جو شرط نہ لگائے وہ حضرت ابن عمر والی روایت پر عمل کرے۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے دونوں باب قائم فرما کر اسی طرح اشارہ فرمایا ہے کہ دونوں میں کوئی تعارض نہیں۔ دونوں الگ الگ حالتوں میں قابل عمل ہیں۔ اور یہی بات صحیح ہے۔ کسی صحیح یا قابل عمل حدیث کو بھی نہ چھوڑا جائے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سابقہ حدیث اور حدیث: ۲۷۶۶)
حضرت سالم اپنے والد (ابن عمر) کے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ وہ حج کے احرام میں شرط لگانے کا انکار کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے: کیا تمھیں تمہارے نبیﷺ کی سنتی کافی نہیں؟ کہ آپ نے شرط نہیں لگائی۔ اگر تم میں سے کسی کو کوئی رکاوٹ پیش آجائے تو (جب موقع ملے) بیت اللہ آئے، اس کا طواف کرے، صفا مروہ کے درمیان سعی کرے، پھر سر منڈوائے یا بال کٹوا لے، پھر حلال ہو جائے اور اس پر آئندہ سال حج ہوگا۔
حدیث حاشیہ:
”آپ نے شرط نہیں لگائی“ شاید ان کا اشارہ عمرۂ حدیبیہ کی طرف ہے کہ وہاں دشمن کی طرف سے رکاوٹ کا خطرہ تھا مگر آپ نے شرط نہیں لگائی جبکہ حضرت ضباعہؓ والی حدیث بعد کی ہے جس میں آپ نے شرط لگانے کا حکم دیا، دونوں پر عمل چاہیے جو شرط لگائے وہ شرط والی روایت پر عمل کرے اور جو شرط نہ لگائے وہ حضرت ابن عمر والی روایت پر عمل کرے۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے دونوں باب قائم فرما کر اسی طرح اشارہ فرمایا ہے کہ دونوں میں کوئی تعارض نہیں۔ دونوں الگ الگ حالتوں میں قابل عمل ہیں۔ اور یہی بات صحیح ہے۔ کسی صحیح یا قابل عمل حدیث کو بھی نہ چھوڑا جائے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سابقہ حدیث اور حدیث: ۲۷۶۶)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر ؓ حج میں شرط لگانا ناپسند کرتے تھے اور کہتے تھے: کیا تمہارے لیے تمہارے نبی کریم ﷺ کی سنت کافی نہیں ہے کہ آپ نے (کبھی) شرط نہیں لگائی۔ اگر تم میں سے کسی کو کوئی روکنے والی چیز روک دے تو اگر ممکن ہو سکے تو بیت اللہ کا طواف کرے، اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرے، پھر سر منڈوائے یا کتروائے پھر احرام کھول دے اور اس پر آئیندہ سال کا حج ہو گا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Salim, from his father, that he used to denounce stipulating conditions in Hajj and said: “Is not the Sunnah of your Prophet (ﷺ) sufficient for you? If one of you is prevented (from completing Hajj) by anything, let him come to the House and circumambulate it, and (perform Sa‘i) between As-Safa and Al-Marwah, then let him shave his head or cut his hair, then exit Ihram; and he has to perform Hajj the next year.” (Sahih)