باب: ایسی اوٹ کی طرف پیشاب کرنا جس سے پردہ حاصل ہو
)
Sunan-nasai:
Mention The Fitrah (The Natural Inclination Of Man)
(Chapter: Urinating Toward An 0bject With Which One Is Screening Oneself)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
30.
حضرت عبدالرحمن بن حسنہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے جب کہ آپ کے ہاتھ میں ڈھال جیسی کوئی چیز تھی۔ آپ نے اسے نیچے رکھا اوراس کی اوٹ میں بیٹھ کر پیشاب کیا۔ لوگوں میں سے ایک شخص کہنے لگا: دیکھو! آپ اس طرح پیشاب کررہے ہیں جیسے عورت پیشاب کرتی ہے۔ آپ نے اس کی بات سن لی اور فرمایا: ”کیا تجھے علم نہیں کہ بنی اسرائیل کے ایک شخص کو کیا سزا ملی تھی؟ انھیں جب پیشاب لگ جاتا تو وہ قینچی سے (اتنا کپڑا) کاٹتے تھے، چنانچہ ان کے ساتھی نے انھیں روکا تو اسے قبر میں عذاب دیا گیا۔“
تشریح:
(1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ صحیح بخاری میں اسی مفہوم کی ایک روایت اس کی شاہد ہے جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ مذکورہ روایت موقوفاً صحیح ہے، البتہ موصولاً صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ہے۔ بہرحال مذکورہ بحث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت صحیح، قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ واللہ أعلم۔ (2) ”جیسے عورت پیشاب کرتی ہے“ یہ تشبیہ بیٹھ کر پیشاب کرنے میں ہوسکتی ہے اور پردے میں بھی۔ بعض کا یہ کہنا ہے کہ یہ الفاظ کہنے والا شخص آپ کا تربیت یافتہ نہ ہوگا بلکہ کوئی غیرمسلم ہوگا یا منافق یا نومسلم کیونکہ بعض احادیث سے پتا چلتا ہے کہ یہ بات کہنے والا مسلمان تھا بلکہ بعض احادیث سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بات صحابۂ کرام ؓنے آپس میں کی تھی۔ دیکھیے: (فتح الباري: ۳۲۸/۱) اوراس کا مقصد قطعاً آپ کی تحقیر یا نعوذ باللہ آپ کی ہتک نہ تھی، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے تو اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، صحیح بات یہ ہے کہ بول و براز کے آداب تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھلائے ہیں۔ اسلام نے ان آداب کو خوب بیان کیا ہے، جبکہ زمانۂ جاہلیت میں ان آداب قضائے حاجت کی چنداں پروا نہ تھی۔ اوٹ اور پردے کا بھی اہتمام نہ کرتے تھے۔ کھڑے ہوکر ایک دوسرے کے سامنے ہی پیشاب کر لیتے تھے اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی اسی ماحول میں پلے بڑھے تھے تو شروع شروع میں آپ کو اس انداز میں پیشاب کرتے دیکھ کر حیرت کا اظہار کیا اور تعجب سے یہ بات کہی کہ ایسے تو عورت پیشاب کرتی ہے۔ مرد تو مرد ہی ہوتے ہیں۔ انھیں اس اوٹ اور پھر بیٹھ کر پیشاب کرنے کی کیا ضرورت؟ بہرحال بعد میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اسلامی تربیت فرمائی تو جاہلیت کے یہ تمام طور طریقے اورعادات ختم ہوگئیں۔ (3) ”قینچی سے کاٹتے۔“ اس سے مراد کپڑا ہے جسے پیشاب لگ جاتا تھا نہ کہ جسم کیونکہ یہ تکلیف ما لا یطاق ہے، یعنی ناقابل عمل چیز ہے ورنہ بول و براز تو نکلتے ہی جسم سے ہیں اور لامحالہ جسم کو لگتے ہیں، تبھی استنجا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی بابت مزید تحقیق کچھ اس طرح سے ہے کہ ابوداود کی ایک روایت میں [جلد] چمڑے کے الفاظ ہیں اور ابوداود ہی کی ایک دوسری روایت میں [جسد] جسم کا ذکر ہے۔ جسد کے لفظ کو البانی رحمہ اللہ نے منکر قرار دیا ہے اور جلد سے مراد چمڑے کا لباس ہے جو پہنا جاتا ہے۔ اس طرح کاٹی جانے والی چیز جسم کا حصہ نہیں بلکہ لباس (کپڑا یا چمڑا) ہوتا تھا جسے پیشاب لگ جاتا تھا۔ صحیح بخاری کی روایت سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ اس روایت کے الفاظ ہیں:[إذاأصابَثَوْبَ أحَدِهِمْ قَرَضَهُ ](صحیح البخاري، حدیث: ۲۲۶)”جب ان میں سے کسی کے کپڑے کو پیشاب لگ جاتا تو وہ اسے کاٹ دیتے۔“
حضرت عبدالرحمن بن حسنہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے جب کہ آپ کے ہاتھ میں ڈھال جیسی کوئی چیز تھی۔ آپ نے اسے نیچے رکھا اوراس کی اوٹ میں بیٹھ کر پیشاب کیا۔ لوگوں میں سے ایک شخص کہنے لگا: دیکھو! آپ اس طرح پیشاب کررہے ہیں جیسے عورت پیشاب کرتی ہے۔ آپ نے اس کی بات سن لی اور فرمایا: ”کیا تجھے علم نہیں کہ بنی اسرائیل کے ایک شخص کو کیا سزا ملی تھی؟ انھیں جب پیشاب لگ جاتا تو وہ قینچی سے (اتنا کپڑا) کاٹتے تھے، چنانچہ ان کے ساتھی نے انھیں روکا تو اسے قبر میں عذاب دیا گیا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ صحیح بخاری میں اسی مفہوم کی ایک روایت اس کی شاہد ہے جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ مذکورہ روایت موقوفاً صحیح ہے، البتہ موصولاً صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ہے۔ بہرحال مذکورہ بحث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت صحیح، قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ واللہ أعلم۔ (2) ”جیسے عورت پیشاب کرتی ہے“ یہ تشبیہ بیٹھ کر پیشاب کرنے میں ہوسکتی ہے اور پردے میں بھی۔ بعض کا یہ کہنا ہے کہ یہ الفاظ کہنے والا شخص آپ کا تربیت یافتہ نہ ہوگا بلکہ کوئی غیرمسلم ہوگا یا منافق یا نومسلم کیونکہ بعض احادیث سے پتا چلتا ہے کہ یہ بات کہنے والا مسلمان تھا بلکہ بعض احادیث سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بات صحابۂ کرام ؓنے آپس میں کی تھی۔ دیکھیے: (فتح الباري: ۳۲۸/۱) اوراس کا مقصد قطعاً آپ کی تحقیر یا نعوذ باللہ آپ کی ہتک نہ تھی، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے تو اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، صحیح بات یہ ہے کہ بول و براز کے آداب تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھلائے ہیں۔ اسلام نے ان آداب کو خوب بیان کیا ہے، جبکہ زمانۂ جاہلیت میں ان آداب قضائے حاجت کی چنداں پروا نہ تھی۔ اوٹ اور پردے کا بھی اہتمام نہ کرتے تھے۔ کھڑے ہوکر ایک دوسرے کے سامنے ہی پیشاب کر لیتے تھے اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی اسی ماحول میں پلے بڑھے تھے تو شروع شروع میں آپ کو اس انداز میں پیشاب کرتے دیکھ کر حیرت کا اظہار کیا اور تعجب سے یہ بات کہی کہ ایسے تو عورت پیشاب کرتی ہے۔ مرد تو مرد ہی ہوتے ہیں۔ انھیں اس اوٹ اور پھر بیٹھ کر پیشاب کرنے کی کیا ضرورت؟ بہرحال بعد میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اسلامی تربیت فرمائی تو جاہلیت کے یہ تمام طور طریقے اورعادات ختم ہوگئیں۔ (3) ”قینچی سے کاٹتے۔“ اس سے مراد کپڑا ہے جسے پیشاب لگ جاتا تھا نہ کہ جسم کیونکہ یہ تکلیف ما لا یطاق ہے، یعنی ناقابل عمل چیز ہے ورنہ بول و براز تو نکلتے ہی جسم سے ہیں اور لامحالہ جسم کو لگتے ہیں، تبھی استنجا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی بابت مزید تحقیق کچھ اس طرح سے ہے کہ ابوداود کی ایک روایت میں [جلد] چمڑے کے الفاظ ہیں اور ابوداود ہی کی ایک دوسری روایت میں [جسد] جسم کا ذکر ہے۔ جسد کے لفظ کو البانی رحمہ اللہ نے منکر قرار دیا ہے اور جلد سے مراد چمڑے کا لباس ہے جو پہنا جاتا ہے۔ اس طرح کاٹی جانے والی چیز جسم کا حصہ نہیں بلکہ لباس (کپڑا یا چمڑا) ہوتا تھا جسے پیشاب لگ جاتا تھا۔ صحیح بخاری کی روایت سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ اس روایت کے الفاظ ہیں:[إذاأصابَثَوْبَ أحَدِهِمْ قَرَضَهُ ](صحیح البخاري، حدیث: ۲۲۶)”جب ان میں سے کسی کے کپڑے کو پیشاب لگ جاتا تو وہ اسے کاٹ دیتے۔“
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبدالرحمٰن بن حسنہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے، آپ کے ہاتھ میں ڈھال کی طرح کوئی چیز تھی، تو آپ نے اسے رکھا، پھر اس کے پیچھے بیٹھے، اور اس کی طرف منہ کر کے پیشاب کیا، اس پر لوگوں نے کہا: ان کو دیکھو! یہ عورت کی طرح پیشاب کر رہے ہیں، آپ ﷺ نے سنا تو فرمایا: ”کیا تمہیں اس چیز کی خبر نہیں جو بنی اسرائیل کے ایک شخص کو پیش آئی، انہیں جب پیشاب میں سے کچھ لگ جاتا تو اسے قینچی سے کاٹ ڈالتے تھے، تو ان کے ایک شخص نے انہیں(ایسا کرنے سے) روکا، چنانچہ اس کی وجہ سے وہ اپنی قبر میں عذاب دیا گیا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that ‘Abdur Rahman bin Hasanah said: “The Messenger of Allah (ﷺ) came out to us with a small leather shield in his hand. He put it down, then he sat behind it and urinated toward it. Some of the people said: ‘Look, he is urinating like a woman.’ He heard that and said: ‘Do you not know what happened to the companion of the Children of Israel? If they got any urine on themselves they would clip that part of their garments off. Their companion told them not to do that and he was punished in his grave.” (Da’if)