تشریح:
(1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ صحیح بخاری میں اسی مفہوم کی ایک روایت اس کی شاہد ہے جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ مذکورہ روایت موقوفاً صحیح ہے، البتہ موصولاً صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ہے۔ بہرحال مذکورہ بحث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت صحیح، قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ واللہ أعلم۔
(2) ”جیسے عورت پیشاب کرتی ہے“ یہ تشبیہ بیٹھ کر پیشاب کرنے میں ہوسکتی ہے اور پردے میں بھی۔ بعض کا یہ کہنا ہے کہ یہ الفاظ کہنے والا شخص آپ کا تربیت یافتہ نہ ہوگا بلکہ کوئی غیرمسلم ہوگا یا منافق یا نومسلم کیونکہ بعض احادیث سے پتا چلتا ہے کہ یہ بات کہنے والا مسلمان تھا بلکہ بعض احادیث سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بات صحابۂ کرام ؓنے آپس میں کی تھی۔ دیکھیے: (فتح الباري: ۳۲۸/۱) اوراس کا مقصد قطعاً آپ کی تحقیر یا نعوذ باللہ آپ کی ہتک نہ تھی، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے تو اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، صحیح بات یہ ہے کہ بول و براز کے آداب تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھلائے ہیں۔ اسلام نے ان آداب کو خوب بیان کیا ہے، جبکہ زمانۂ جاہلیت میں ان آداب قضائے حاجت کی چنداں پروا نہ تھی۔ اوٹ اور پردے کا بھی اہتمام نہ کرتے تھے۔ کھڑے ہوکر ایک دوسرے کے سامنے ہی پیشاب کر لیتے تھے اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی اسی ماحول میں پلے بڑھے تھے تو شروع شروع میں آپ کو اس انداز میں پیشاب کرتے دیکھ کر حیرت کا اظہار کیا اور تعجب سے یہ بات کہی کہ ایسے تو عورت پیشاب کرتی ہے۔ مرد تو مرد ہی ہوتے ہیں۔ انھیں اس اوٹ اور پھر بیٹھ کر پیشاب کرنے کی کیا ضرورت؟ بہرحال بعد میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اسلامی تربیت فرمائی تو جاہلیت کے یہ تمام طور طریقے اورعادات ختم ہوگئیں۔
(3) ”قینچی سے کاٹتے۔“ اس سے مراد کپڑا ہے جسے پیشاب لگ جاتا تھا نہ کہ جسم کیونکہ یہ تکلیف ما لا یطاق ہے، یعنی ناقابل عمل چیز ہے ورنہ بول و براز تو نکلتے ہی جسم سے ہیں اور لامحالہ جسم کو لگتے ہیں، تبھی استنجا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی بابت مزید تحقیق کچھ اس طرح سے ہے کہ ابوداود کی ایک روایت میں [جلد] چمڑے کے الفاظ ہیں اور ابوداود ہی کی ایک دوسری روایت میں [جسد] جسم کا ذکر ہے۔ جسد کے لفظ کو البانی رحمہ اللہ نے منکر قرار دیا ہے اور جلد سے مراد چمڑے کا لباس ہے جو پہنا جاتا ہے۔ اس طرح کاٹی جانے والی چیز جسم کا حصہ نہیں بلکہ لباس (کپڑا یا چمڑا) ہوتا تھا جسے پیشاب لگ جاتا تھا۔ صحیح بخاری کی روایت سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ اس روایت کے الفاظ ہیں:[إذا أصابَ ثَوْبَ أحَدِهِمْ قَرَضَهُ ] (صحیح البخاري، حدیث: ۲۲۶) ”جب ان میں سے کسی کے کپڑے کو پیشاب لگ جاتا تو وہ اسے کاٹ دیتے۔“