کتاب: کون سی چیزیں غسل واجب کرتی ہیں اور کون سی نہیں؟
(
باب: اس بچے کا پیشاب جس نے ابھی کھانا کھانا شروع نہیں کیا
)
Sunan-nasai:
Mention When Ghusal (A Purifying Bath) Is Obligatory And When It Is Not
(Chapter: Urine Of A Boy Who Does Not Yet Eat Food)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
302.
حضرت ام قیس بنت محصن ؓ سے روایت ہے کہ میں اپنے ایک چھوٹے بچے کو جس نے ابھی کھانا شروع نہیں کیا تھا، رسول اللہ ﷺ کے پاس لائی۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے گود میں بٹھا لیا۔ اس نے آپ کے کپڑے پر پیشاب کر دیا۔ آپ نے پانی منگوایا اور اسے کپڑے پر چھڑک دیا اور اسے دھویا نہیں۔
تشریح:
(1) چھوٹا بچہ جس نے ابھی کھانا شروع نہ کیا ہو، اس کے پیشاب کی صفائی میں رعایت دی گئی ہے کہ اس پر پانی چھڑک دیا جائے۔ باقاعدہ نچوڑ کر دھونا ضروری نہیں، مگر یہ رعایت صرف لڑکے کے لیے ہے، لڑکی کے لیے نہیں، مگر بعض فقہاء نے اس تفریق کو تسلیم نہیں کیا۔ وہ دونوں صورتوں میں دھونے ہی کے قائل ہیں لیکن صحیح حدیث کو رائے سے رد کر دینا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ شریعت نے اس کے علاوہ اور کئی جگہوں پر اس قسم کا فرق روا رکھا ہے، مثلا: جو شخص اونٹ کا گوشت کھائے، وہ نماز کے لیے وضو کرے گا اور دوسرے حلال جانوروں کا گوشت کھانے سے نماز کے لیے وضو کا حکم نہیں ہے اگر وہ پہلے سے باوضو ہے۔ دیکھیے، (صحیح مسلم، الحیض، حدیث: ۳۶۰) اگر لڑکے اور لڑکی میں فرق کر دیا تو اسے خوش دلی سے قبول کرنا چاہیے۔ کسی بھی شرعی حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا اہل ایمان کا شیوہ ہے۔ اسے اپنی رائے یا قیاس، اپنی پسند یا ناپسند کی سان پر نہیں چڑھانا چاہیے ورنہ شریعت کا حکم تو باقی رہے گا اور سان ٹوٹ جائے گی۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے لڑکی اور لڑکے کے درمیان فرق کی یہ توجیہ کی ہے کہ بچے کو لوگ زیادہ اٹھاتے ہیں۔ ظاہر ہے اس کے پیشاب میں زیادہ لوگ مبتلا ہوں گے اور جو چیز جتنی عام ہو، اتنی اس میں تخفیف کی جانی چاہیے، بخلاف بچی کے کہ اسے کم ہی اٹھاتے ہیں، خصوصاً جب وہ اتنی چھوٹی ہو۔ (2) [فَنَضَحَهُ]’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (پیشاب) پر پانی چھڑکا۔‘‘ یہاں [نضح] سے مراد پانی چھڑکنا اور چھینٹے مارنا ہے، پانی بہانا یا دھونا مراد نہیں ہے جیسا کہ [وَلَمْ يَغْسِلْهُ]’’اور اسے دھویا نہیں‘‘ سے اس کی تائید ہوتی ہے کیونکہ صحیح احادیث میں اس بات کی صراحت موجود ہے: ’’لڑکی کا پیشاب دھویا جائے اور لڑکے کے پیشاب پر چھینٹے مارے جائیں، جب تک ان کی خوراک صرف دودھ ہو۔‘‘ ہاں! جب لڑکا دودھ کے ساتھ ساتھ کوئی اور خوراک، مثلاً: دلیہ، روٹی یا دہی اور چاول وغیرہ کھانا شروع کر دے تو پھر اس کا پیشاب بھی دھویا جائے گا۔ دیکھیے: (سنن أبي داود، الطھارة، أحادیث: ۳۷۶- ۳۷۹) (3) بچوں کے ساتھ پیار و محبت کرنی چاہیے۔ اگر ان کی طرف سے کوئی تکلیف پہنچے تو پھر بھی ان سے نرمی اور شفقت سے پیش آنا چاہیے۔ (4) نیک لوگوں کے پاس دعا کے لیے جانا چاہیے۔ واللہ أعلم۔
حضرت ام قیس بنت محصن ؓ سے روایت ہے کہ میں اپنے ایک چھوٹے بچے کو جس نے ابھی کھانا شروع نہیں کیا تھا، رسول اللہ ﷺ کے پاس لائی۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے گود میں بٹھا لیا۔ اس نے آپ کے کپڑے پر پیشاب کر دیا۔ آپ نے پانی منگوایا اور اسے کپڑے پر چھڑک دیا اور اسے دھویا نہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) چھوٹا بچہ جس نے ابھی کھانا شروع نہ کیا ہو، اس کے پیشاب کی صفائی میں رعایت دی گئی ہے کہ اس پر پانی چھڑک دیا جائے۔ باقاعدہ نچوڑ کر دھونا ضروری نہیں، مگر یہ رعایت صرف لڑکے کے لیے ہے، لڑکی کے لیے نہیں، مگر بعض فقہاء نے اس تفریق کو تسلیم نہیں کیا۔ وہ دونوں صورتوں میں دھونے ہی کے قائل ہیں لیکن صحیح حدیث کو رائے سے رد کر دینا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ شریعت نے اس کے علاوہ اور کئی جگہوں پر اس قسم کا فرق روا رکھا ہے، مثلا: جو شخص اونٹ کا گوشت کھائے، وہ نماز کے لیے وضو کرے گا اور دوسرے حلال جانوروں کا گوشت کھانے سے نماز کے لیے وضو کا حکم نہیں ہے اگر وہ پہلے سے باوضو ہے۔ دیکھیے، (صحیح مسلم، الحیض، حدیث: ۳۶۰) اگر لڑکے اور لڑکی میں فرق کر دیا تو اسے خوش دلی سے قبول کرنا چاہیے۔ کسی بھی شرعی حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا اہل ایمان کا شیوہ ہے۔ اسے اپنی رائے یا قیاس، اپنی پسند یا ناپسند کی سان پر نہیں چڑھانا چاہیے ورنہ شریعت کا حکم تو باقی رہے گا اور سان ٹوٹ جائے گی۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے لڑکی اور لڑکے کے درمیان فرق کی یہ توجیہ کی ہے کہ بچے کو لوگ زیادہ اٹھاتے ہیں۔ ظاہر ہے اس کے پیشاب میں زیادہ لوگ مبتلا ہوں گے اور جو چیز جتنی عام ہو، اتنی اس میں تخفیف کی جانی چاہیے، بخلاف بچی کے کہ اسے کم ہی اٹھاتے ہیں، خصوصاً جب وہ اتنی چھوٹی ہو۔ (2) [فَنَضَحَهُ]’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (پیشاب) پر پانی چھڑکا۔‘‘ یہاں [نضح] سے مراد پانی چھڑکنا اور چھینٹے مارنا ہے، پانی بہانا یا دھونا مراد نہیں ہے جیسا کہ [وَلَمْ يَغْسِلْهُ]’’اور اسے دھویا نہیں‘‘ سے اس کی تائید ہوتی ہے کیونکہ صحیح احادیث میں اس بات کی صراحت موجود ہے: ’’لڑکی کا پیشاب دھویا جائے اور لڑکے کے پیشاب پر چھینٹے مارے جائیں، جب تک ان کی خوراک صرف دودھ ہو۔‘‘ ہاں! جب لڑکا دودھ کے ساتھ ساتھ کوئی اور خوراک، مثلاً: دلیہ، روٹی یا دہی اور چاول وغیرہ کھانا شروع کر دے تو پھر اس کا پیشاب بھی دھویا جائے گا۔ دیکھیے: (سنن أبي داود، الطھارة، أحادیث: ۳۷۶- ۳۷۹) (3) بچوں کے ساتھ پیار و محبت کرنی چاہیے۔ اگر ان کی طرف سے کوئی تکلیف پہنچے تو پھر بھی ان سے نرمی اور شفقت سے پیش آنا چاہیے۔ (4) نیک لوگوں کے پاس دعا کے لیے جانا چاہیے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام قیس بنت محصن ؓ سے روایت ہے کہ وہ اپنے ایک چھوٹے بیٹے کو جو ابھی کھانا نہیں کھاتا تھا رسول اللہ ﷺ کے پاس لے کر آئیں، رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنی گود میں بٹھا لیا، تو اس نے آپ کے کپڑے پر پیشاب کر دیا، تو آپ ﷺ نے پانی منگایا، اور اس سے کپڑے پر چھینٹا مار، اور اسے دھویا نہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Umm Qais bint Mihsan that she brought a small son of hers who has not started eating food to the Messenger of Allah (ﷺ) . The Messenger of Allah (ﷺ) took him in his lap and he urinated on his garment, so he called for some water and sprinided it on it, but he did not wash it. (Sahih)