Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: Picking Up Pebbles)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3057.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہﷺ نے جمرۂ عقبہ کی رمی والی صبح (۱۰ ذوالحجہ) کو، جبکہ اپ اپنی سواری پر سوار تھے، فرمایا: ”میرے لیے کنکریاں چنو۔“ میں نے (چھوٹی چھوٹی) کنکریاں چنیں جو خذف کی کنکریوں جیسی تھیں۔ جب میں نے وہ آپ کے ہاتھ میں رکھیں تو آپ نے فرمایا: ”اس قسم کی کنکریوں سے رمی کرنی چاہیے۔ دین میں غلو (حد سے بڑھ جانے) سے بچو کیونکہ تم سے پہلی قوموں کو دین میں غلو نے ہلاک کیا۔“
تشریح:
(۱) مکمل دنوں کی رمی کی کنکریوں کی تعداد ستر بنتی ہے۔ یہ کنکریاں کہیں سے بھی اٹھائی جا سکتی ہیں، البتہ یہ کہنا کہ جمرات کے پاس سے نہیں اٹھانی چاہئیں، بے دلیل موقف ہے، نیز مزدلفہ ہی سے کنکریاں اٹھانے کو مستحب قرار دینا بھی محل نظر ہے۔ (۲) کنکریاں چھوٹی چھوٹی ہونی چاہئیں جو عموماً بچے نشانہ بازی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جن سے کوئی جانور شکار نہیں کی جا سکتا، البتہ آنکھ وغیرہ کو زخمی کر سکتی ہیں کیونکہ آنکھ نازک عضو ہے۔ رمی کے لیے چھوتی کنکریاں اس لیے ضروری ہیں اگر کسی کو لگ جائیں تو نقصان نہ ہو۔ تقریباً چنے کے دانے کے برابر ہوں۔ (۳) ’’غلو‘‘ یعنی مقررہ حد سے بڑھ جانا۔ مندرجہ بالا مسئلے میں غلو یہ ہے کہ بڑے بڑے ڈھیلے مارے جائیں جس سے کوئی زخمی ہو سکتا ہے۔ (۴) ’’ہلاک کیا‘‘ یعنی گمراہ کیا جو عذاب کا سبب ہے اور یہ اصل ہلاکت ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہﷺ نے جمرۂ عقبہ کی رمی والی صبح (۱۰ ذوالحجہ) کو، جبکہ اپ اپنی سواری پر سوار تھے، فرمایا: ”میرے لیے کنکریاں چنو۔“ میں نے (چھوٹی چھوٹی) کنکریاں چنیں جو خذف کی کنکریوں جیسی تھیں۔ جب میں نے وہ آپ کے ہاتھ میں رکھیں تو آپ نے فرمایا: ”اس قسم کی کنکریوں سے رمی کرنی چاہیے۔ دین میں غلو (حد سے بڑھ جانے) سے بچو کیونکہ تم سے پہلی قوموں کو دین میں غلو نے ہلاک کیا۔“
حدیث حاشیہ:
(۱) مکمل دنوں کی رمی کی کنکریوں کی تعداد ستر بنتی ہے۔ یہ کنکریاں کہیں سے بھی اٹھائی جا سکتی ہیں، البتہ یہ کہنا کہ جمرات کے پاس سے نہیں اٹھانی چاہئیں، بے دلیل موقف ہے، نیز مزدلفہ ہی سے کنکریاں اٹھانے کو مستحب قرار دینا بھی محل نظر ہے۔ (۲) کنکریاں چھوٹی چھوٹی ہونی چاہئیں جو عموماً بچے نشانہ بازی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جن سے کوئی جانور شکار نہیں کی جا سکتا، البتہ آنکھ وغیرہ کو زخمی کر سکتی ہیں کیونکہ آنکھ نازک عضو ہے۔ رمی کے لیے چھوتی کنکریاں اس لیے ضروری ہیں اگر کسی کو لگ جائیں تو نقصان نہ ہو۔ تقریباً چنے کے دانے کے برابر ہوں۔ (۳) ’’غلو‘‘ یعنی مقررہ حد سے بڑھ جانا۔ مندرجہ بالا مسئلے میں غلو یہ ہے کہ بڑے بڑے ڈھیلے مارے جائیں جس سے کوئی زخمی ہو سکتا ہے۔ (۴) ’’ہلاک کیا‘‘ یعنی گمراہ کیا جو عذاب کا سبب ہے اور یہ اصل ہلاکت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عقبہ کی صبح مجھ سے فرمایا: اور آپ اپنی سواری پر تھے کہ ”میرے لیے کنکریاں چن دو۔“ تو میں نے آپ کے لیے کنکریاں چنیں جو چھوٹی چھوٹی تھیں کہ چٹکی میں آ سکتی تھیں جب میں نے آپ کے ہاتھ میں انہیں رکھا تو آپ نے فرمایا: ”ایسی ہی ہونی چاہیئے، اور تم اپنے آپ کو دین میں غلو سے بچاؤ۔ کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو ان کے دین میں غلو ہی نے ہلاک کر دیا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : ترمزی اور امام احمد دونوں نے یہاں ”ابن عباس“ سے ”عبداللہ بن عباس“ سمجھا ہے، حالانکہ ”عبداللہ“ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات ہی میں عورتوں بچوں کے ساتھ منی روانہ کر دیا تھا، اور مزدلفہ سے منیٰ تک سواری پر آپ کے پیچھے ”فضل بن عباس“ ہی سوار تھے، یہ دونوں باتیں صحیح مسلم کتاب الحج باب ۴۵ اور ۴۹ میں اور سنن کبریٰ بیہقی (۵/۱۲۷) میں صراحت کے ساتھ مذکور ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Al ‘Aliyah said: “Ibn ‘Abbas said: ‘On the morning of Al-’Aqabah, while he was on his mount, the Messenger of Allah (ﷺ) said to me: “Pick up (some pebbles) for me.” So I picked up some pebbles for him that were the size of date stones or fingertips, and when I placed them in his hand he said: “Like these. And beware of going to extremes in religious matters, for those who came before you were destroyed because of going to extremes in religious matters.”(Sahih)