Sunan-nasai:
Mention The Fitrah (The Natural Inclination Of Man)
(Chapter: Being Careful To Avoid Contamination With Urine)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
31.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے، تو فرمایا:’’تحقیق ان قبروں والوں کو عذاب ہو رہا ہے اور انھیں کسی بھاری کام (کہ جس سے بچنا ناممکن ہو) کی وجہ سے عذاب نہیں ہو رہا۔ اس قبر والا تو اپنے پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور اس قبر والا چغلیاں کھاتا تھا۔ پھر آپ نے کھجور کی تازہ شاخ منگوائی اور اسے چیر کر دو حصے کر دیا۔ پھر ایک اس قبر پر گاڑ دی اور ایک دوسری پر۔ پھر فرمایا: ’’امید ہے جب تک یہ خشک نہیں ہوتیں، ان سے عذاب میں تخفیف کی جائے گی۔‘‘ اس روایت کو بیان کرتے ہوئے منصور نے اعمش کی مخالفت کی ہے کہ اس نے یہ روایت مجاہد بواسطہ ابن عباس بیان کی ہے، یعنی مجاہد اور ابن عباس کے درمیان میں طاؤس کا واسطہ ذکر نہیں کیا۔
تشریح:
(1) بعض لوگ [فِي كَبِيرٍ ]’’بھاری کاموں کی وجہ سے‘‘ کے معنی کرتے ہیں ’’بڑے گناہ‘‘ یعنی ان لوگوں کو عذاب تو ہو رہا تھا، لیکن ایسے گناہوں کی وجہ سے نہیں جو کہ بڑے اور خطرناک ہوں، بلکہ معمولی گناہوں کی وجہ سے عذاب ہو رہا تھا، حالانکہ ان الفاظ کا یہ مفہوم ہے ہی نہیں۔ صحیح اور درست مفہوم یہی ہے کہ یہ دونوں کام، یعنی ’’پیشاب سے بے احتیاطی اور چغل خوری‘‘ بڑے کبیرہ اور خطرناک گناہ ہیں۔ اس بات کی صراحت حدیث شریف میں موجود ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث ۲۱۶) ہاں الفاظ کا یہ مطلب ضرور ہے کہ یہ دونوں کام کوئی اتنے بھاری اور مشکل نہیں کہ عمل نہ ہوسکتا ہو اور ان سے بچا نہ جا سکتا ہو۔ ان کاموں سے بچنا کوئی بڑی مشکل بات نہیں تھی۔ حقیقتاً یہ دونوں کام کبیرہ گناہ ہیں۔
(2) چھڑی یا شاخ کا رکھنا دراصل فعلی شفاعت تھی کہ یا اللہ! اتنی دیر تک ان سے عذاب میں تخفیف ہو جائے۔ چھڑی رکھنا صرف مدت کے تعین کے لیے تھا جیسا کہ صریح الفاظ ہیں۔ ورنہ چھڑی کا تخفیف عذاب سے کوئی تعلق نہیں کہ اسے سنت سمجھ کر اب بھی ایسا کیا جائے، البتہ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے چھڑی رکھنے کی وصیت مذکور ہے۔ (صحیح البخاري، الجنائز، قبل الحدیث: ۱۳۶۱) اس کے پیش نظر بعض کی رائے یہ ہے کہ چھڑی رکھنا تو جائز ہے، مگر اس کا تخفیف عذاب سے کوئی تعلق نہیں۔ مؤخر الذکر بات تو ٹھیک ہے لیکن حق یہ ہے کہ یہ صحابی کا اجتہاد ہے کیونکہ تخفیف عذاب میں نری چھڑی کا کوئی کمال نہیں تھا، اصل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی برکت اور اللہ تعالیٰ سے قربت کی بنا پر آپ کو تخفیف عذاب کی امید تھی۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ آپ کا معجزہ تھا، کسی اورشخص کے لیے حالات قبور کا کشف و ظہور ناممکن ہے۔ جب قبر کی کیفیت کا پتہ ہی نہیں تو چھڑی گاڑنے کے کیا معنی؟ ہاں! بطور نشانی کوئی پتھر یا چھڑی وغیرہ ضرورت کے پیش نظرعا رضی طور پرنصب کی جا سکتی ہے۔ واللہ أعلم۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے، تو فرمایا:’’تحقیق ان قبروں والوں کو عذاب ہو رہا ہے اور انھیں کسی بھاری کام (کہ جس سے بچنا ناممکن ہو) کی وجہ سے عذاب نہیں ہو رہا۔ اس قبر والا تو اپنے پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور اس قبر والا چغلیاں کھاتا تھا۔ پھر آپ نے کھجور کی تازہ شاخ منگوائی اور اسے چیر کر دو حصے کر دیا۔ پھر ایک اس قبر پر گاڑ دی اور ایک دوسری پر۔ پھر فرمایا: ’’امید ہے جب تک یہ خشک نہیں ہوتیں، ان سے عذاب میں تخفیف کی جائے گی۔‘‘ اس روایت کو بیان کرتے ہوئے منصور نے اعمش کی مخالفت کی ہے کہ اس نے یہ روایت مجاہد بواسطہ ابن عباس بیان کی ہے، یعنی مجاہد اور ابن عباس کے درمیان میں طاؤس کا واسطہ ذکر نہیں کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) بعض لوگ [فِي كَبِيرٍ ]’’بھاری کاموں کی وجہ سے‘‘ کے معنی کرتے ہیں ’’بڑے گناہ‘‘ یعنی ان لوگوں کو عذاب تو ہو رہا تھا، لیکن ایسے گناہوں کی وجہ سے نہیں جو کہ بڑے اور خطرناک ہوں، بلکہ معمولی گناہوں کی وجہ سے عذاب ہو رہا تھا، حالانکہ ان الفاظ کا یہ مفہوم ہے ہی نہیں۔ صحیح اور درست مفہوم یہی ہے کہ یہ دونوں کام، یعنی ’’پیشاب سے بے احتیاطی اور چغل خوری‘‘ بڑے کبیرہ اور خطرناک گناہ ہیں۔ اس بات کی صراحت حدیث شریف میں موجود ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث ۲۱۶) ہاں الفاظ کا یہ مطلب ضرور ہے کہ یہ دونوں کام کوئی اتنے بھاری اور مشکل نہیں کہ عمل نہ ہوسکتا ہو اور ان سے بچا نہ جا سکتا ہو۔ ان کاموں سے بچنا کوئی بڑی مشکل بات نہیں تھی۔ حقیقتاً یہ دونوں کام کبیرہ گناہ ہیں۔
(2) چھڑی یا شاخ کا رکھنا دراصل فعلی شفاعت تھی کہ یا اللہ! اتنی دیر تک ان سے عذاب میں تخفیف ہو جائے۔ چھڑی رکھنا صرف مدت کے تعین کے لیے تھا جیسا کہ صریح الفاظ ہیں۔ ورنہ چھڑی کا تخفیف عذاب سے کوئی تعلق نہیں کہ اسے سنت سمجھ کر اب بھی ایسا کیا جائے، البتہ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے چھڑی رکھنے کی وصیت مذکور ہے۔ (صحیح البخاري، الجنائز، قبل الحدیث: ۱۳۶۱) اس کے پیش نظر بعض کی رائے یہ ہے کہ چھڑی رکھنا تو جائز ہے، مگر اس کا تخفیف عذاب سے کوئی تعلق نہیں۔ مؤخر الذکر بات تو ٹھیک ہے لیکن حق یہ ہے کہ یہ صحابی کا اجتہاد ہے کیونکہ تخفیف عذاب میں نری چھڑی کا کوئی کمال نہیں تھا، اصل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی برکت اور اللہ تعالیٰ سے قربت کی بنا پر آپ کو تخفیف عذاب کی امید تھی۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ آپ کا معجزہ تھا، کسی اورشخص کے لیے حالات قبور کا کشف و ظہور ناممکن ہے۔ جب قبر کی کیفیت کا پتہ ہی نہیں تو چھڑی گاڑنے کے کیا معنی؟ ہاں! بطور نشانی کوئی پتھر یا چھڑی وغیرہ ضرورت کے پیش نظرعا رضی طور پرنصب کی جا سکتی ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ” یہ دونوں قبر والے عذاب دئیے جا رہے ہیں، اور کسی بڑی وجہ سے عذاب نہیں دیے جا رہے ہیں،۱؎ رہا یہ شخص تو اپنے پیشاب کی چھینٹ سے نہیں بچتا تھا، اور رہا یہ ( دوسرا ) شخص تو یہ چغل خوری کیا کرتا تھا“ پھر آپ ﷺ نے کھجور کی ایک تازہ ٹہنی منگوائی، اور اسے چیر کر دو ٹکڑے کیے اور ہر ایک کی قبر پر ایک ایک شاخ گاڑ دی، پھر فرمایا: ” امید ہے کہ جب تک یہ دونوں خشک نہ ہو جائیں ان کے عذاب میں تخفیف کر دی جائے۔ “ ۲؎
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn ‘Abbas said: “The Messenger of Allah (ﷺ) passed by two graves and said: ‘These two are being punished, but they are not being punished for something that was difficult to avoid. As for this, he used not to take precautions to avoid (his body or clothes being soiled by) urine, and this one used to walk around spreading malicious gossip.’ Then he called for a fresh palm-leaf stalk and split it in two, and placed one piece on each of the two graves. They said: ‘Messenger of Allah (ﷺ) , why did you do that?’ He said: ‘Perhaps the torment will be reduced for them so long as this does not dry out.” (Sahih) Mansur contradicted him, he reported it from Mujahid from Ibn ‘Abbas, but he did not mention Tawus in it.