کتاب: کون سی چیزیں غسل واجب کرتی ہیں اور کون سی نہیں؟
(
باب: حضر(حالت اقامت)میں تیمم کرنا
)
Sunan-nasai:
Mention When Ghusal (A Purifying Bath) Is Obligatory And When It Is Not
(Chapter: Tayammum When One Is Not Traveling)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
311.
حضرت ابوجہیم ؓ سے منقول ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ بئر جمل کی طرف سے آئے۔ آپ کو آگے سے ایک آدمی ملا اور اس نے آپ کو سلام کہا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اسے جواب نہ دیا حتیٰ کہ آپ ایک دیوار کی طرف گئے، چہرے اور ہاتھوں کا مسح کیا، پھر اسے جواب دیا۔
تشریح:
(1) بئر جمل مدینے میں ایک جگہ کا نام ہے۔ (2) سلام کا جواب دینے کے لیے طہارت شرط نہیں مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسب نہ سمجھا کہ اللہ کا ذکر بلا طہارت کیا جائے۔ وضو کی گنجائش نہ تھی، لہٰذا آپ نے تیمم فرمایا کہ یہ بھی مجبوری کے وقت ایک قسم کی طہارت ہے۔ اس سے احناف نے عید اور جنازے کے لیے تیمم کے جواز پر استدلال کیا ہے، مگر یہ استدلال کمزور ہے کیونکہ ذکر کے لیے تو وضو شرط نہیں مگر جنازے اور عید کے لیے تو وضو شرط ہے۔ خیر امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصود تو یہ ہے کہ تیمم صرف سفر ہی میں نہیں، گھر میں بھی جائز ہے، اگر پانی نہ مل سکے یا بیماری کی وجہ سے پانی استعمال نہ کیا جاسکے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين، وقال الدارمي: " صح إسناده "،
وقال الترمذي: " حديث حسن صحيح "، ونقل مثله عن ابن راهويه) .
إسناده: حدثنا محمد بن المنهال: نا يزيد بن زرَبْع عن سعيد عن قتادة عن
عزرة عن سعيد بن عبد الرحمن بن إبزى عن أبيه عن عمًار بن ياسر.
قلت: هذا إسناد صحيح على شرط الشيخين.
والحديث أخرجه الترمذي (1/268) ، والدارقطني (ص 67) من طرق أخرى
عن يزيد بن زربع... به.
ثم أخرجه الطحاوي (1/67) ، والبيهقي (1/210) من طريق عبد الوهاب بن
عطاء عن سعيد... به.
وأخرجه أحمد (4/263) : ثنا عفان ويونس قالا: ثنا أبان: ثنا قتادة... به.
وأخرجه الدارمي (1/190) ، والدارقطني من طريق عفان وحده؛ لكن الدارمي
ليس عنده: عن عزرة. ثم قال:
" صح إسناده ". وقال الترمذي:
" حديث حسن صحيح ".
ثم نقل (1/270) مثله عن إسحاق بن إبراهيم بن مخلد الحنظلي- وهو ابن
راهويه-.
حضرت ابوجہیم ؓ سے منقول ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ بئر جمل کی طرف سے آئے۔ آپ کو آگے سے ایک آدمی ملا اور اس نے آپ کو سلام کہا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اسے جواب نہ دیا حتیٰ کہ آپ ایک دیوار کی طرف گئے، چہرے اور ہاتھوں کا مسح کیا، پھر اسے جواب دیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) بئر جمل مدینے میں ایک جگہ کا نام ہے۔ (2) سلام کا جواب دینے کے لیے طہارت شرط نہیں مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسب نہ سمجھا کہ اللہ کا ذکر بلا طہارت کیا جائے۔ وضو کی گنجائش نہ تھی، لہٰذا آپ نے تیمم فرمایا کہ یہ بھی مجبوری کے وقت ایک قسم کی طہارت ہے۔ اس سے احناف نے عید اور جنازے کے لیے تیمم کے جواز پر استدلال کیا ہے، مگر یہ استدلال کمزور ہے کیونکہ ذکر کے لیے تو وضو شرط نہیں مگر جنازے اور عید کے لیے تو وضو شرط ہے۔ خیر امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصود تو یہ ہے کہ تیمم صرف سفر ہی میں نہیں، گھر میں بھی جائز ہے، اگر پانی نہ مل سکے یا بیماری کی وجہ سے پانی استعمال نہ کیا جاسکے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ میں اور ام المؤمنین میمونہ ؓ کے مولیٰ عبداللہ بن یسار دونوں آئے یہاں تک کہ ابوجہیم بن حارث بن صمہ انصاری ؓ کے پاس گئے تو وہ کہنے لگے کہ رسول اللہ ﷺ بئر جمل کی طرف سے آئے، تو آپ سے ایک آدمی ملا، اور اس نے آپ کو سلام کیا، تو آپ ﷺ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ آپ دیوار کے پاس آئے، اور آپ نے اپنے چہرہ اور دونوں ہاتھ پر مسح کیا، پھر اس کے سلام کا جواب دیا۔
حدیث حاشیہ:
بئر جمل مدینہ میں ایک مشہور جگہ کا نام ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from ‘Umair the freed slave of Ibn ‘Abbas that he heard him say: “Abdullah bin Yasar the freed slave of Maimunah, and I came and entered upon Abu Juhaim bin Al-Harith bin Al-Sammah Al Ansari. Abu Juhaim said: ‘The Messenger of Allah (ﷺ) came back from the direction of Bi’r Al-Jamal and was met by a man who greeted him with Salam, but the Messenger of Allah (ﷺ) did not return the greeting until he turned to the wall and wiped his face and hands, then he returned the greeting.” (Sahih)