باب: کنواری لڑکی سے اس کے نکاح کے بارے میں اجازت لی جائے
)
Sunan-nasai:
The Book of Marriage
(Chapter: Asking A Virgin For Permission With Regard To Marriage)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3260.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ”بیوہ عورت اپنے نکاح کے بارے میں اپنے ولی سے زیادہ اختیار رکھتی ہے اور کنواری لڑکی سے بھی اس کے نکاح کے بارے میں اجازت لی جائے۔ اور اس کی اجازت اس کا خاموش رہنا (انکار نہ کرنا) ہے۔“
تشریح:
(1) ”بیوہ عورت‘‘ تفصیل سابقہ حدیث کے فائدے میں دیکھیے۔ (2) ”کنواری لڑکی“ اگر چہ عورت کے لیے ولی کی رضا مندی شرط ہے مگر عورت کی اپنی رضا مندی بھی ضروری ہے۔ ولی کی رضا مندی اس کہ لیے عورت جذبات میں آکر ایسی جگہ نہ کر بیٹھے جس میں اولیاء کو عار لاحق ہوتی ہو اور عورت کی رضا مندی اس لیے کہ اس نے ساری زندگی گزارنی ہے۔ (3) ”خاموش رہنا“ چونکہ کنواری لڑکی زیاہ شرمیلی ہوتی ہے، ضروری نہیں وہ زبان سے اظہار کرے، لہٰذا اس کا خاموش رہنا بھی جبکہ اس کے سامنے تفصیل کردی جائے، رضا مندی شمار ہوگی، مگر یہ خاموشی خوف اور ناراضی والی نہ ہو۔ (4) اگر کنواری لڑکی زبان سے انکار کردے تو وہاں اس کا نکاح نہیں کیا جائے گا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3262
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3260
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3262
تمہید کتاب
نکاح سے مراد ایک مرد اور عورت کا اپنی اور ا ولیاء کی رضا مندی سے علانیہ طور پر ایک دوسرے کے ساتھ خاص ہوجانا ہے تاکہ وہ اپنے فطری تقاضے بطریق احسن پورے کرسکیں کیونکہ اسلام دین فطرت ہے‘ اس لیے ا س میں نکاح کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے اور دوسرے ادیان کے برعکس نکاح کرنے والے کی تعریف کی گئی ہے اور نکاح نہ کرنے والے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ نکاح سنت ہے اور اس سنت کے بلاوجہ ترک کی اجازت نہیں کیونکہ اس کے ترک سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوں گی۔ علاوہ ازیں نکاح نسل انسانی کی بقا کا انتہائی مناسب طریقہ ہے۔ نکاح نہ کرنا اپنی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہے اور یہ جرم ہے اسی لیے تمام انبیاء عؑنے نکاح کیے اور ان کی اولاد ہوئی
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ”بیوہ عورت اپنے نکاح کے بارے میں اپنے ولی سے زیادہ اختیار رکھتی ہے اور کنواری لڑکی سے بھی اس کے نکاح کے بارے میں اجازت لی جائے۔ اور اس کی اجازت اس کا خاموش رہنا (انکار نہ کرنا) ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”بیوہ عورت‘‘ تفصیل سابقہ حدیث کے فائدے میں دیکھیے۔ (2) ”کنواری لڑکی“ اگر چہ عورت کے لیے ولی کی رضا مندی شرط ہے مگر عورت کی اپنی رضا مندی بھی ضروری ہے۔ ولی کی رضا مندی اس کہ لیے عورت جذبات میں آکر ایسی جگہ نہ کر بیٹھے جس میں اولیاء کو عار لاحق ہوتی ہو اور عورت کی رضا مندی اس لیے کہ اس نے ساری زندگی گزارنی ہے۔ (3) ”خاموش رہنا“ چونکہ کنواری لڑکی زیاہ شرمیلی ہوتی ہے، ضروری نہیں وہ زبان سے اظہار کرے، لہٰذا اس کا خاموش رہنا بھی جبکہ اس کے سامنے تفصیل کردی جائے، رضا مندی شمار ہوگی، مگر یہ خاموشی خوف اور ناراضی والی نہ ہو۔ (4) اگر کنواری لڑکی زبان سے انکار کردے تو وہاں اس کا نکاح نہیں کیا جائے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بیوہ عورت اپنے ولی (سر پرست) کے بالمقابل اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کا زیادہ حق رکھتی ہے۱؎ اور کنواری (لڑکی) سے اس کی شادی کی اجازت لی جائے گی۔ اور اس کی اجازت (اس سے پوچھے جانے پر) اس کا خاموش رہنا ہے۔“ ۲؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : «أَحَقُّ» کا صیغہ مشارکت کا متقاضی ہے، گویا «الْأَيِّمُ» (بیوہ) اپنے نکاح کے سلسلہ میں جس طرح حقدار ہے اسی طرح اس کا ولی بھی حقدار ہے، یہ اور بات ہے کہ ولی کی بنسبت اسے زیادہ حق حاصل ہے کیونکہ ولی کی وجہ سے اس پر جبر نہیں کیا جا سکتا جب کہ اس کی وجہ سے ولی پر جبر کیا جا سکتا ہے چنانچہ ولی اگر شادی سے ناخوش ہے اور اس کا منکر ہے تو بواسطہ قاضی اس کا نکاح ہو گا، اس توضیح سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ یہ حدیث «لانِكاحَإلا بوَلِيّ» کے منافی نہیں ہے۔ ۲؎ : لیکن اگر منظور نہ ہو تو کھل کر بتا دینا چاہیئے کہ مجھے یہ رشتہ پسند نہیں ہے تاکہ ماں باپ اس کے لیے دوسرا رشتہ منتخب کریں یا اسے مطمئن کریں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn 'Abbas that the Messenger of Allah said: "A previously married woman has more right to decide about herself (with regard to marriage) than her guardian, and a virgin should be asked for permission with regard to marriage, and her permission is her silence.