باب: بیوی کو کہنا ’’اپنے گھر چلی جا‘‘ جب کہ ارادہ طلاق کا نہ ہو
)
Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: "Go To Your Family" Does Not Necessarily Mean Divorce)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3423.
حضرت عبداللہ بن کعب بن مالک سے راویت ہے کہ میں نے (اپنے والد محترم) حضرت کعب بن مالک کو اپنی آپ بیتی بیان کرتے سنا‘ جب وہ غزوۂ تبوک میں رسول اللہ ﷺ سے پیچھے رہ گئے۔ انہوں نے پورا واقعہ بیان فرمایا۔ پھر فرمایا: اس دوران میں رسول اللہ ﷺ کا قاصد میرے پاس آیا اور کہنے لگا: رسول اللہ ﷺ تجھے حکم دے رہے ہیں کہ اپنی بیوی سے الگ ہوجا۔ میں نے کہا: اسے طلاق دے دوں یا کیا کروں؟ وہ کہنے لگا: نہیں‘ صرف اس سے علیحدہ رہ‘ تو ا پنے گھر چلی جا اور ان کے پاس رہ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اس بارے میں کوئی فیصلہ فرمائے۔
تشریح:
(1) حدیث: ۳۴۵۱ میں عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب اپنے دادا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کررہے ہیں اور ۳۴۵۲ میں اپنے والد عبداللہ بن کعب سے۔ دونوں طرح صحیح ہے کیونکہ عبدالرحمن کا سماع ا پنے باپ عبداللہ بن کعب اور دادا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ دونوں سے ثابت ہوتا ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ہدی الساری میں اس طرف اشارہ کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح روایت کو اس مذکورہ سند (۳۴۵۱) سے لائے ہیں۔ اس میں عبدالرحمن نے اپنے دادا سے سماع کی تصریح کی ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري‘ الجھاد‘ حدیث: ۲۹۴۸) (2) صریح لفظ طلاق بولا جائے تو طلاق ہی مراد ہوگی‘ نیت ہو یا نہ مگر کچھ ایسے الفاظ ہیں جن سے طلاق مراد لی جا سکتی ہے اور کوئی اور معنیٰ بھی مراد لیے جا سکتے ہیں۔ ان الفاظ سے طلاق تب واقع ہوگی جب نیت طلاق کی ہو۔ ان کو کنایات طلاق کہتے ہیں۔ حدیث میں مذکورہ الفاظ بھی اسی قبیل سے ہیں۔ چونکہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ کی نیت طلاق دینے کی نہیں تھی‘ لہٰذا ان الفاظ (اپنے گھر چلی جا) سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3425
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3423
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3452
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت عبداللہ بن کعب بن مالک سے راویت ہے کہ میں نے (اپنے والد محترم) حضرت کعب بن مالک کو اپنی آپ بیتی بیان کرتے سنا‘ جب وہ غزوۂ تبوک میں رسول اللہ ﷺ سے پیچھے رہ گئے۔ انہوں نے پورا واقعہ بیان فرمایا۔ پھر فرمایا: اس دوران میں رسول اللہ ﷺ کا قاصد میرے پاس آیا اور کہنے لگا: رسول اللہ ﷺ تجھے حکم دے رہے ہیں کہ اپنی بیوی سے الگ ہوجا۔ میں نے کہا: اسے طلاق دے دوں یا کیا کروں؟ وہ کہنے لگا: نہیں‘ صرف اس سے علیحدہ رہ‘ تو ا پنے گھر چلی جا اور ان کے پاس رہ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اس بارے میں کوئی فیصلہ فرمائے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حدیث: ۳۴۵۱ میں عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب اپنے دادا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کررہے ہیں اور ۳۴۵۲ میں اپنے والد عبداللہ بن کعب سے۔ دونوں طرح صحیح ہے کیونکہ عبدالرحمن کا سماع ا پنے باپ عبداللہ بن کعب اور دادا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ دونوں سے ثابت ہوتا ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ہدی الساری میں اس طرف اشارہ کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح روایت کو اس مذکورہ سند (۳۴۵۱) سے لائے ہیں۔ اس میں عبدالرحمن نے اپنے دادا سے سماع کی تصریح کی ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري‘ الجھاد‘ حدیث: ۲۹۴۸) (2) صریح لفظ طلاق بولا جائے تو طلاق ہی مراد ہوگی‘ نیت ہو یا نہ مگر کچھ ایسے الفاظ ہیں جن سے طلاق مراد لی جا سکتی ہے اور کوئی اور معنیٰ بھی مراد لیے جا سکتے ہیں۔ ان الفاظ سے طلاق تب واقع ہوگی جب نیت طلاق کی ہو۔ ان کو کنایات طلاق کہتے ہیں۔ حدیث میں مذکورہ الفاظ بھی اسی قبیل سے ہیں۔ چونکہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ کی نیت طلاق دینے کی نہیں تھی‘ لہٰذا ان الفاظ (اپنے گھر چلی جا) سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن کعب بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے کعب بن مالک ؓ کو اپنا اس وقت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے جب وہ غزوہ تبوک کے لیے نکلنے میں رسول اللہ ﷺ سے پیچھے رہ گئے تھے۔ مذکورہ قصہ بیان کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کا قاصد آ کر کہتا ہے: رسول اللہ ﷺ تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اپنی بیوی سے الگ تھلگ رہیں، میں نے کہا: کیا میں اسے طلاق دے دوں؟ یا اس کا کچھ اور مطلب ہے، اس (قاصد) نے کہا، طلاق نہیں، بس تم اس کے قریب نہ جاؤ (اس سے جدا رہو)، میں نے اپنی بیوی سے کہا: تم اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ ۱؎ اور جب تک اس معاملہ میں اللہ کا کوئی فیصلہ نہ آ جائے وہیں رہو۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : گویا «الْحَقِي بِأَهْلِكِ» سے طلاق اس وقت واقع ہو گی جب اسے طلاق کی نیت سے کہا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ka'b bin Malik narrated the Hadith about when he stayed behind, and did not join the Messenger of Allah on the expedition to Tabuk. He told the story, and said: "The envoy of the Messenger of Allah came to me and said: 'The Messenger of Allah commands you to stay away from your wife.' I said: 'Shall I divorce her or what?' He said: 'No, just keep away from her and do not approach her.' I said to my wife: 'Go to your family and stay with them until Allah, the Mighty and Sublime, decides concerning this matter.'"