Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: Setting A Time Limit For Making A Choice)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3441.
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب یہ آیت اتری: {وَاِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ} ”اگر تم اللہ تعالیٰ‘ اس کے رسول اور آخرت کو پسند کرتی ہو۔“ تو رسول اللہﷺ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”اے عائشہ! میں تجھ سے ایک بات کرنے لگا ہوں۔ تجھے جواب میں جلدی کی کوئی ضرورت نہیں حتیٰ کہ تو اپنے والدین سے بھی مشورہ کرلے۔“ آپ جانتے تھے کہ اللہ کی قسم! میرے والدین مجھے کبھی بھی آپ سے جدائی کا مشورہ نہیں دے سکتے۔ پھر آپ نے مجھ پر یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ…﴾ ”اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دیجیے: اگر تم دنیا کی زندگی اور زیب وزینت چاہتی تو تو۔“ میں نے فوراً کہا: کیا میں اس بارے میں اپنے والدین سے مشورہ لوں؟ میں تو (ہر حال میں) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہی کی طلب گار ہوں۔ ابو عبدالرحمن (امام نسائی ؓ ) بیان کرتے ہیں کہ یہ‘ یعنی حدیث معمر عن الزہری‘ عن عروہ‘ عن عائشہ غلطی ہے۔ اور پہلی‘ یعنی حدیث یونس وموسیٰ بن علی عن ابن شہاب‘ عن ابی سلمہ عن عائشہ درست ہے۔ واللہ أعلم۔
تشریح:
امام نسائی رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ یہ حدیث معمر عن الزہری عن عروہ کے طریق سے محفوظ ہے اور یونس وموسیٰ عن الزہری عن ابی سلمہ کے طریق سے محفوظ ہے لیکن امام صاحب رحمہ اللہ کا یہ خیال محل نظر معلوم ہوتا ہے کیونکہ معمر‘ عروہ سے بیان کرنے میں منفرد نہیں بلکہ ان کی متابعت موجود ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”معمرکی‘ عروہ سے بیان کرنے میں جعفر بن برقان نے متابعت کی ہے۔ ممکن ہے زہری نے یہ حدیث (عروہ اور ابوسلمہ) دونوں سے سنی ہو‘ انہوں نے کبھی ایک سے بیان کردیا اور کبھی دوسرے سے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ دیکھیے: (فتح الباري: ۸/۵۲۳) معلوم ہوتا ہے کہ دونوں طریق محفوظ ہیں اور حدیث دونوں طرق سے صحیح ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3443
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3441
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3470
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب یہ آیت اتری: {وَاِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ} ”اگر تم اللہ تعالیٰ‘ اس کے رسول اور آخرت کو پسند کرتی ہو۔“ تو رسول اللہﷺ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”اے عائشہ! میں تجھ سے ایک بات کرنے لگا ہوں۔ تجھے جواب میں جلدی کی کوئی ضرورت نہیں حتیٰ کہ تو اپنے والدین سے بھی مشورہ کرلے۔“ آپ جانتے تھے کہ اللہ کی قسم! میرے والدین مجھے کبھی بھی آپ سے جدائی کا مشورہ نہیں دے سکتے۔ پھر آپ نے مجھ پر یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ…﴾ ”اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دیجیے: اگر تم دنیا کی زندگی اور زیب وزینت چاہتی تو تو۔“ میں نے فوراً کہا: کیا میں اس بارے میں اپنے والدین سے مشورہ لوں؟ میں تو (ہر حال میں) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہی کی طلب گار ہوں۔ ابو عبدالرحمن (امام نسائی ؓ ) بیان کرتے ہیں کہ یہ‘ یعنی حدیث معمر عن الزہری‘ عن عروہ‘ عن عائشہ غلطی ہے۔ اور پہلی‘ یعنی حدیث یونس وموسیٰ بن علی عن ابن شہاب‘ عن ابی سلمہ عن عائشہ درست ہے۔ واللہ أعلم۔
حدیث حاشیہ:
امام نسائی رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ یہ حدیث معمر عن الزہری عن عروہ کے طریق سے محفوظ ہے اور یونس وموسیٰ عن الزہری عن ابی سلمہ کے طریق سے محفوظ ہے لیکن امام صاحب رحمہ اللہ کا یہ خیال محل نظر معلوم ہوتا ہے کیونکہ معمر‘ عروہ سے بیان کرنے میں منفرد نہیں بلکہ ان کی متابعت موجود ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”معمرکی‘ عروہ سے بیان کرنے میں جعفر بن برقان نے متابعت کی ہے۔ ممکن ہے زہری نے یہ حدیث (عروہ اور ابوسلمہ) دونوں سے سنی ہو‘ انہوں نے کبھی ایک سے بیان کردیا اور کبھی دوسرے سے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ دیکھیے: (فتح الباري: ۸/۵۲۳) معلوم ہوتا ہے کہ دونوں طریق محفوظ ہیں اور حدیث دونوں طرق سے صحیح ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب آیت:«إن كنتن تردن اللہ ورسوله» اتری تو نبی اکرم ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور اس سلسلے میں سب سے پہلے مجھ سے بات چیت کی، آپ نے فرمایا: ”عائشہ! میں تم سے ایک بات کہنے والا ہوں، تو تم اپنے ماں باپ سے مشورہ کیے بغیر جواب دینے میں جلدی نہ کرنا ۔“آپ بخوبی جانتے تھے کہ قسم اللہ کی میرے ماں باپ مجھے آپ سے جدائی اختیار کر لینے کا مشورہ و حکم دینے والے ہرگز نہیں ہیں، پھر آپ نے مجھے یہ آیت پڑھ کر سنائی: «يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا» میں نے (یہ آیت سن کر) آپ سے عرض کیا: کیا آپ مجھے اس بارے میں اپنے والدین سے مشورہ کر لینے کے لیے کہہ رہے ہیں، میں تو اللہ اور اس کے رسول کو چاہتی ہوں (اس بارے میں مشورہ کیا کرنا ؟)۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہ (یعنی حدیث «معمر عن الزہری عن عائشہ» غلط ہے اور اول (یعنی حدیث «یونس و موسیٰ عن ابن شہاب، عن أبی سلمہ عن عائشہ» زیادہ قریب صواب ہے۔ واللہ أعلم۔
حدیث حاشیہ:
w
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Aishah said: "When the following was revealed: 'But if you desire Allah and His Messenger,' the Prophet came and started with me. He said: 'O 'Aishah, I am going to say something to you and you do not have to rush (to make a decision) until you consult your parents.'" She said: "He knew, by Allah, that my parents would never tell me to leave him. Then he recited to me: 'O Prophet! Say to your wives: If you desire the life of this world, and its glitter.'" "I said: 'Do I need to consult my parents concerning this? I desire Allah and His Messenger.'"